لیکن اوکلاہوما سے تیل کی اتنی زیادہ پیداوار کی وجہ صرف تیل کی موجودہ قیمتیں ہیں جن میں موسم گرما سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔شیل سے حاصل کیے جانے والے تیل کی قیمت کے لیے ضروری ہے کہ اس تیل کی فی بیرل قیمت قدرتی تیل کی قیمت سے زیادہ نہ ہو۔یہ ایک ایسا ہدف ہے جو ہر ہفتے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیونکہ کسی ایک مقام پر تیل کا نیا کنواں کھودنے کی قیمت دوسری جگہ سے لامحالہ مختلف ہوتی ہے۔لیکن مسٹر گِبز کہتے ہیں کہ بات صرف اپنے اخراجات پوری کرنے کی نہیں، بلکہ شیل سے تیل حاصل کرنے والی کپمنیاں منافع کمانا چاہتی ہیں۔ڈینئل رومو فی الحال تو خوش ہیں لیکن مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔’پانچ سال پہلے نئے کنویں کھودنے کے لیے کمپنیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ تیل کم از کم 90 ڈالر فی بیرل یا اس سے زیادہ قیمت پر فروخت کریں، لیکن اس شعبے میں نئی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد اب کمپنیاں 60 سے 65 ڈالر فی بیرل تک بھی تیل فروخت کر سکتی ہیں۔‘
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پہلے فریکنگ کے لیے ایک نیا کنواں کھودنے میں دو ہفتے لگتے تھے، لیکن اب یہ کام آپ پانچ دنوں میں کر سکتے ہیں۔مسٹر گِبز کے خیال میں ہوگا یہ کہ اب کمپنیاں ہر دوسرے روز نیا کنواں نہیں کھودیں گی بلکہ اس میں وقفہ بڑھا دیں گی۔’زیادہ تر کمپنیاں نئے کنویں کھودنے کے منصوبے اس امید پر مؤخر کر دیں گی کہ آنے والے دنوں میں نئی ٹیکنالوجی آ جائے گی جس سے تیل نکالنا مزید کم خرچ ہو جائے گا۔‘کل کا کیا ہوگا؟لیکن جدید اور کم قیمت ٹیکنالوجی کی نوید کے باوجود توانائی کے شعبے میں فکر مندی کے دن ختم نہیں ہوئے۔آرڈمور کے ایک مصروف ہوٹل کے مالک ڈینئل رومو کہتے ہیں کہ ابھی دن اچھے دن گزر رہے ہیں لیکن مستقبل کا کیا ہوگا۔ ’اگر تیل کی قیمتیں یوں ہی مسلسل گرتی رہیں تو ہمیں تکلیف ہونا شروع ہو جائے گی کیونکہ پھر اس علاقے میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں کے لیے یہاں سے تیل نکالنا منافع بخش کاروبار نہیں رہے گا۔‘امید کی کرنتاہم ابھی تک تو شیل سے تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کا یہی کہنا ہے کہ ان کا پیداوار کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔یہاں آپ کو کچھ سست مویشیوں اور مٹی کی ڈھیریوں کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ڈینئل رومو کے ہوٹل کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر چلتے جائیں تو آپ کو ’بی این کے پیٹرولیم‘ نامی کمپنی کا ایک منصوبہ دکھائی دیتا ہے جہاں نوکیلے درختوں کے نیچے یہ کمپنی علاقے میں اپنا 11واں کنواں کھود رہی ہے۔کمپنی کے نائب صدر رے پین نے مجھے بتایا کہ اس قسم کا ایک کنواں کھودنے کی لاگت 80 لاکھ ڈالر ہے اور یہاں سے 30 لاکھ بیرل تیل نکلنے کی امید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ تیل کی گرتی قیمتیں فکرمندی کی بات ہے، لیکن ان کی کپمنی کے لیے یہ قیمت اب بھی اتنی ہے کہ وہ اس بیش قیمت کنویں سے بھی منافع کما لیں گے۔
’اگر قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل سے بہت نیچے بھی آ جاتی ہیں، ہم تب بھی نئے کنوؤں کے منصوبوں پر اسی رفتار پر عمل کرتے رہیں گے۔