اسلام آباد (نوزڈیسک)بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے مالدار افراد عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی، مالیاتی نظام پر کم ہوتے اعتماد اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے باعث اب اپنے قیمتی اثاثے، خصوصاً سونا، بینک لاکرز کے بجائے بیرون ملک محفوظ جگہوں پر رکھ رہے ہیں۔
اس رجحان سے سب سے زیادہ فائدہ سنگاپور کو ہو رہا ہے، جسے اب “مشرق کا جنیوا” قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دولت مند افراد سنگاپور کو ایک محفوظ مالی پناہ گاہ تصور کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں سوئٹزرلینڈ کو سمجھا جاتا تھا۔سی این بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنگاپور ایئرپورٹ کے قریب واقع ایک چھ منزلہ نجی سیکیورٹی کمپلیکس میں اس وقت تقریباً 1.5 ارب ڈالر کے سونے اور چاندی کی اینٹیں (بارز) محفوظ کی گئی ہیں۔ اس عمارت کو انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے، جہاں ہزاروں ڈپازٹ بکسز اور وسیع گولڈ اسٹوریج چیمبرز موجود ہیں۔گریگور گریگرسن، جو اس سیکیورٹی ادارے کے بانی ہیں، کے مطابق 2025 کے ابتدائی چار مہینوں (جنوری تا اپریل) کے دوران گولڈ اور سلور اسٹوریج کے آرڈرز میں 88 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ سونے اور چاندی کی فروخت میں پچھلے سال کی نسبت 200 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ لبنان، مصر اور الجزائر جیسے ممالک کے متمول طبقے ملکی بینکاری نظام پر اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی دولت کو سونے کی صورت میں بیرون ملک محفوظ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، کیونکہ سونا نہ صرف مادی دولت کی علامت ہے بلکہ اس میں سرمایہ کاری کا خطرہ بھی کم ہے۔گریگرسن کا کہنا ہے کہ سونا رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ یہ اثاثہ ای ٹی ایف یا میوچل فنڈز جیسی مالیاتی اسکیموں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے، کیونکہ اس میں تیسرے فریق کی ناکامی کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔2023 میں پیش آنے والے سلیکون ویلی بینک کے بحران کے بعد سے عالمی مالیاتی نظام پر عدم اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سرمایہ کار اب اپنی دولت کو پیپر کرنسی میں رکھنے کے بجائے سونے میں محفوظ سمجھتے ہیں۔
سنگاپور کو اس ضمن میں ترجیح دیے جانے کی ایک بڑی وجہ اس کا مستحکم قانونی نظام اور محفوظ تجارتی ماحول ہے، جو اسے سونے کی درآمد و برآمد کے لیے مثالی بناتا ہے۔ورلڈ گولڈ کونسل کے ماہر جان ریڈ کا کہنا ہے کہ اب ایک واضح رجحان یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سونا بینکوں کے بجائے نجی اور محفوظ مقامات پر ذخیرہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ سرمایہ کار بینکنگ نظام کو مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔