لاہور( این این آئی)پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ہم کوئی مافیا ہیںاور نہ ہی کسی سٹے بازی میں ملوث ہیں،،وزیر اعظم سے درخواست ہے ہمیں ملاقات کا وقت دیں ، پنجاب حکومت کی جانب سے چینی کی ایکس مل قیمت 80روپے اورپرچون قیمت85روپے فی کلو مقرر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت ملازمین کی
تنخواہیں ،17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی ادائیگی سمیت دیگر اخراجات کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی لے ،اگر حکومت چینی پر عائد 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس ختم کر دے تو ہمیں چینی کی 80روپے فی کلو فروخت پر کوئی اعتراض نہیں،ملک کی شوگر انڈسٹری حکومت کو ناکام بنانے کے لئے کوئی منفی ہتھکنڈے استعمال نہیں کر رہی ۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن ( پنجاب زون) کے سابق چیئرمین جاوید کیانی اور ترجمان چوہدری عبد الوحید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اس سال تقریباً37لاکھ ٹن جبکہ ملکی سطح پر 56سے57لاکھ ٹن چینی کی پیداوار کا اندازہ ہے ، ملکی ضرورت کے لئے 54لاکھ ٹن چینی چاہیے ، اب حکومت فیصلہ کرے کہ اس نے چینی درآمد کرنی ہے یا نہیں ۔ انہوں نے جہانگیر ترین اوروزیر اعظم عمران خان کے درمیان جھگڑے کے منفی اثرات شوگر انڈسٹری پر مرتب ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ، ہم ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے اس کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملوں نے 375سے380ارب روپے کاگنا خریدا ہے ، کاشتکاروں کو گنے کی 95فیصد ادائیگی ہو چکی ہے جبکہ باقی 5
فیصد ادائیگی چینی کی سیل ہونے پر کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن شوگر انڈسٹری پر 500ارب روپے کھانے کا الزام لگاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ گزشتہ سال شوگر ملوں نے 48لاکھ ٹن چینی بنائی جس کی قیمت 384ارب روپے بنتی ہے اس پر 58ارب روپے سیلز ٹیکس ہے ۔ اب شوگر انڈسٹری کے ذمے 456ارب
روپے کے سیلز ٹیکس کی بات کی جارہی ہے ، پنجاب میں 42شوگر ملیں ہیں اگر انہیں فروخت بھی کر دیں تو456ارب روپے نہیں مل سکتے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں پر سٹہ مافیاکی پشت پناہی کا الزام لگائے گئے لیکن پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خود 2017ء میں پنجاب حکومت کو سٹہ بازوں کے خلاف ایکشن لینے
کے لئے خط ارسال کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں چینی کا بحران مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے آخری دو سالوں میں شروع ہوا ، ان دو سالوں میں چینی کی پیداوار سر پلس ہوئی ، ہم نے حکومت کو بروقت چینی برآمد کرنے کے لئے کہا لیکن دونوں مرتبہ اکتوبر میں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی جس سے دونوں مرتبہ
حکومت کو سبسڈی دینا پڑی ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے سبسڈی کی مد میں 3ارب روپے مختص کئے تھے جس میں سے شوگر ملوں نے 2ارب40کروڑ روپے لئے اور 60کروڑ روپے حکومت پنجاب کے پاس بچ گئے ۔ اس دور میں 15شوگر ملیں بینک کرپٹ ہوئیں اور ان میں سے بیشتر دو یا تین ہاتھ بک چکی ہیں ۔ ہماری
موجودہ حکومت سے کوئی دشمنی نہیں ، حکومت کو پوری طرح سپورٹ کرنا چاہتے ہیں اس لئے حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر افہام و تفہیم سے قابل عمل طریق کار وضع کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میںتیس لاکھ ایکڑ پر گنے کی کاشت ہوتی ہے ،ہم گنے کو کرشنگ کرکے چینی بنا کر عوام کو فراہم کرتے ہیں، 1950 میں چینی حکومت
خریداا کرتی تھی پورا اختیار حکومت کا تھاسرکاری پیسے سے سارا نظام چل رہا تھا،شوگر کمیشن کی ون مین رپورٹ جو افتخار چودھری نے بنوائی ،اس رپورٹ میں بھی کہا گیا ملز اگر جلدی چلتی ہیں تو چینی کم بنتی ہے ،چینی کی پیداواری لاگت حکومت کی طرف سے ابھی چیک ہی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلرز کے خلاف کاروائی ہوئی تو سپلائی چین متاثر ہوئی ،دکاندار نے اگر دو بوریاں رکھی ہیں تو ان پر ایف آئی آر ہو
جاتی ہے ،ڈیلرز ایف آئی اے میں مقدمات بھگت رہے ہیں،ہمارے لوگوں پر سٹہ مافیاکی پشت پناہی کا الزام لگائے گئے حالانکہ ہم نے خود پنجاب حکومت کو خود سٹہ مافیاکے خلاف خط لکھا تھا،ہمارے گھر کاروبار سب پاکستان میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کسی سے کوئی لڑائی نہیں ، ہماری گزارش ہے کہ چینی حکومت لے لے اور ملوں کے تمام اخراجات پورے کر دے ،بغیر سوچے سمجھے فیصلہ کرنا افسوسناک ہے۔