فلوریڈا(مانیٹرنگ ڈیسک) اب آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں صرف تین گھنٹے میں پہنچ پائیں گے، تیز ترین طیارہ تیاری کے مراحل میں ہے جس پر آپ لاہور سے لندن تک کا سفر صرف ایک گھنٹے میں کر سکیں گے، نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع سپر سونک جیٹ فرم ایریون ایک ایسا طیارہ
بنانے پر کام کررہی ہے جو نو گھنٹے کے سفر کو ایک گھنٹے میں بدل دے گا جی ہاں، لاہور سے لندن تک کا سفر صرف ایک گھنٹے میں ممکن ہو جائے گا۔اس طیارے میں ابتدائی طور پر پچاس مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی، جہاز کا ماحول دوست بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔کمپنی کے چیئرمین ٹام وائس نے کہا کہ ہم ایسا جہاز تیار کرنا چاہتے ہیں جو مسافروں کو تین گھنٹوں کے دوران دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچا سکے۔ٹائم وائس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم عالمی نقل و حمل میں انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے وقت اور کافی سرمائے کی ضرورت ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پورے طیارے کی جگہ کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ فلائٹ ٹیسٹ ہیڈ کوارٹر بنانے کے لئے ہر چیز موجود ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پارک 110 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا اورعمارتیں صرف 20 ملین مربع فٹ پر ہوں گی، جس کا سائز فٹ بال کے 14 میدانوں کے برابر بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طیارے کی تیاری اور تحقیق و تجربے کے بعد اسے 2027ء میں پیش کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ تین سو ایرین پارک جیٹ طیارے تیار کیے جائیں گے۔دوسری جانب 2015ء میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایئر بس ہائپرسونک نے ایک ایسے مسافر طیارے کی تیاری کے لیے ایک پیٹنٹ
حاصل کر لیا ہے جو لگ بھگ ایک گھنٹے میں لندن سے نیویارک تک پرواز کر سکتا ہے۔کونکورڈ دوم نامی یہ جیٹ طیارہ آواز کی رفتار سے چار گنا تیز اڑنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔تو کیا فضائی نقل وحمل کی دنیا میں کوئی انقلاب برپا ہونے کو ہے؟امریکی پیٹنٹ آفس کی دستاویزات کے مطابق جیٹ ماک 4.5 یا آواز کی رفتار سے
ساڑھے چار گنا زیادہ تیز پرواز کرے گا۔ کونکورڈ کی رفتار ماک ٹو تھی۔پیٹنٹ کے لیے دی گئی درخواست کے مطابق جہاز میں مختلف نوعیت کے انجن نصب ہوں گے جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوں گے اور اس کے لیے توانائی جہاز میں محفوظ ہائیڈروجن سے آئے گی۔ٹیک آف کے لیے جہاز میں دو ٹربو جیٹس اور پچھلے حصے
میں ایک راکٹ موٹر نصب کی جائے گی اور یہ خلائی جہاز کی طرح عمودی سمت میں اوپر اٹھے گا۔جب ایک بار یہ اڑان بھر لے گا تو ٹربو جیٹس بند ہو جائیں گے اور پھر راکٹ موٹر اس جہاز کو ایک لاکھ فٹ کی بلندی تک پہنچا دے گی۔بلندی پر پہنچنے کے بعد ریم جیٹس استعمال کیے جائیں گے جو عام طور پر میزائلوں میں استعمال ہوتے
ہیں۔ ان ریم جیٹس کے ذریعے جہاز کی رفتار ماک 4.5 کی رفتار تک پہنچ جائے گی۔پیٹنٹ کی وضاحت کے لیے مخصوص ویب سائٹ پیٹنٹ یوگی کے مطابق جو بھی جیٹ پرواز میں سفر کرے گا اس کے لیے وہ دنیا کے سب سے بلند ترین رولر کوسٹر کی سواری بن جائے گی۔اگر مسافر پرسکون انداز میں سفر کرنا چا ہتے ہیں تو طیارے
میں مسافروں کے بیٹھنے کی لیے جھولا نما سیٹیں ہوں گی۔جہاز میں سینکڑوں افراد سوار نہیں ہوں گے بلکہ اس طیارے میں صرف 20 مسافروں کی جگہ ہو گی۔یہ آئیڈیا صرف کمرشل پروازوں کے لیے ہی محدود نہیں کیا جائے گا بلکہ پیٹنٹ میں ایئر بس کی جانب سے فوجی جیٹ کا بھی ذکر ہے۔ایئر بس نے 2003 میں کونکورڈ پر آنے والی
بہت زیادہ آپریٹنگ لاگت کے باعث کونکورڈ بنانے بند کر دیے تھے۔سنہ 1970 میں سپر سونک جیٹ کو اس کے چار ٹربو جیٹ انجنوں کی وجہ سے شور اور آواز کی آلودگی پھیلانے سے متعلق شکایتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔آبادی والے علاقوں سے اس کے گزرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے باعث اسے مالی فائدہ نہیں ہوا۔کونکورڈ ٹو کی درخواست میں شور کے مسئلے کو حل کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ عمودی سمت میں پرواز کرنے کی
وجہ سے شور مختلف سمتوں میں منتشر ہو جائے گا اور زمین تک نہیں پہنچ پائے گا۔پیٹنٹ کے لیے دی گئی درخواستوں کی ایک بڑی تعداد حقیقی مصنوعات کے طور پر نظر نہیں آتیں۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی ایئر بس کی کچھ مصنوعات میں مل سکتی ہے۔ایئربس اس پیٹنٹ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔دراصل یہ آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 2011 میں شائع کیا گیا تھا اور اب اس کی تشہیر اس لیے کی جا رہی ہے کہ اسے امریکی پیٹنٹ آفس کی جانب سے منظوری مل گئی ہے۔