اسلام آباد (مانیٹرنگ+ آن لائن)سال 2021ء میں پاکستانی روپیہ ڈالر سمیت دیگربین الاقوامی کرنسیوں کے خلاف بہتر کارکردگی دکھانے والی کرنسی بن گیا، یہ بات معاشی ماہرمزمل اسلم نے کی، انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ یکم جنوری سے 31 مارچ تک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ دنیا کی بہترین کرنسی رہی ہے، اسے اچھا قرار دیتے ہوئے کہا کہ
یکساں مسابقت برقرار رکھنے کے لئے تشویش ہے۔ واضح رہے کہ مقامی کرنسی مارکیٹوں میں گزشتہ روز پاکستان روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر مزید گرتے ہوئے 153روپے کی سطح پر آگیاجب کہ یورو اور برطانوی پاونڈ کی قدر میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ روز انٹر بینک میں امریکی ڈالر کی قیمت خرید153.10روپے سے گھٹ کر152.80روپے اور قیمت فروخت153.20روپے سے گھٹ کر153روپے ہوگئی جب کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید153.20روپے سے گھٹ کر152.70روپے اور قیمت فروخت153.50روپے سے گھٹ کر153.20روپے ہوگئی۔دیگر کرنسیوں میں یورو کی قیمت خرید178روپے سے گھٹ کر177.50روپے اور قیمت فروخت180روپے سے گھٹ کر179.30روپے ہوگئی جب کہ برطانوی پاونڈ کی قیمت خرید209روپے سے گھٹ کر208.50روپے اور قیمت فروخت211روپے سے گھٹ کر210.50روپے ہوگئی۔ پاکستانی روپے نے دوسری کرنسیوں کے خلاف بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے کال سینٹروں کو بہتر بنانے کے لیے بینکوں کو جامع ہدایات جاری کردیں۔مرکزی بینک نے بینکوں کو 30 جون 2021ء تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بینکوں اور صارفین کے تعلق میں
کال سینٹروں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر بینکوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ صارفین کے بہتر تجربے کی خاطر اپنے کال سینٹروں کا انتظام مؤثر بنائیں۔ حال ہی میں بینک دولت پاکستان نے بینکوں میں کال سینٹروں کے انتظام کا ایک موضوعاتی جائزہ لیا۔ اس جائزے کے نتائج کی روشنی میں اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو کال سینٹروں کے انتظام کے بارے میں ضوابطی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ شکایات کے اندراج میں سہولت مہیا کرنے کے لیے تمام بینکوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ اپنے
کال سینٹروں پر ٹول فری نمبر فراہم کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ کال سینٹر نمبرز بینکوں کے دفاتر اور ویب سائٹس پر نمایاں طور پر موجود ہوں۔ بینکوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ کال ویٹ ٹائم یعنی کسی ایجنٹ سے رابطہ قائم کرنے کا وقت جہاں تک ممکن ہو کم کرنے کے اقدامات کریں تاکہ صارفین کو زحمت نہ ہو۔ مزید یہ کہ بینک اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ کال ایجنٹ شکایت درج کرنے سے انکار نہ کریں اور تمام شکایت کنندگان کو ایک موزوں شکایت نمبر فراہم کیا جائے۔
صارفین کے کوائف کی رازداری یقینی بنانے کے لیے بینک اپنے کال سینٹروں پر مناسب کنٹرولز نافذ کریں گے جن میں سی سی ٹی وی سے مسلسل نگرانی، وہاں ا?مد ورفت پر نظر رکھنا، موبائل فون جیسے پورٹیبل آلات پر پابندی، پرنٹر اور ای میل تک منضبط رسائی شامل ہیں۔ بینک اپنے کال سینٹر عملے کو اجازت دیں گے کہ وہ صرف ’جاننے کی ضرورت‘ کی بنیادوں پر صارفین کے کوائف تک رسائی حاصل کریں یعنی وہ کال سینٹر پر رابطہ کرنے والے صارفین تک محدود رہیں گے۔ صارف کی
معلومات تک رسائی کا مناسب ریکارڈ رکھا جائے گا اور غیر مجاز رسائی کی نشاندہی کے لیے اس کی نگرانی کی جائے گی۔ مزید برآں، بینک کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کی ماسکنگ یقینی بنائیں گے تا کہ کال ایجنٹ کارڈ کے صرف آخری چار ہندسوں کو دیکھ سکیں۔اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ کال سینٹروں پر کافی انسانی وسائل تعینات کریں تا کہ صارف کا تجربہ اطمینان بخش رہے۔
اس مقصد کے لیے بینکوں کو اپنے کال سینٹروں پر آئی ٹی کے مناسب کنٹرولز اور ہنگامی اور آفات سے بحالی کے سیٹ اپ نصب کرنا ہوں گے۔ کال سینٹروں پر آنے والی اور کی گئی تمام کالز کا ریکارڈ رکھا جائے گا اور اس ریکارڈ کو کم از کم ایک سال تک برقرار رکھا جائے گا۔ بینک اس بات کو یقینی بنائیں گے کال سینٹروں میں مناسب عملہ موجود رہے جو تربیت یافتہ ہو، خصوصاً ڈجیٹل فراڈ کے انتظام، بینکوں کی متعلقہ پالیسیوں اور اقدامات، معلومات اور شکایات نمٹانے کے امور میں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق
کال سینٹر انتظام کو بہتر بنانے کے لیے بینکوں کو مناسب پالیسی اور نگرانی کا طریقہ کار لانا ہوگا اور ان کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ کال سینٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بینک بہترین عالمی روایات کے مطابق موزوں بینچ مارکس کے ساتھ ’کارکردگی کے کلیدی اظہاریے‘ (KPIs) نافذ کریں گے۔ بینکوں میں کال سینٹر انتظام کے بارے میں ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور سی ای او کی منظور کردہ ایک جامع پالیسی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) بھی موجود ہوگا۔بینکوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ 30 جون 2021ء تک اسٹیٹ بینک کی ان ہدایات کی تعمیل کریں۔