اسلام آباد (مانٹرنگ ڈیسک) دوست ملک چین، جاپان، روش اور جنوبی کوریا نے قابل تجدید توانائی کے سب سے بڑے سپر گرڈ کی تعمیر کے معاہدہ کی یاداشت پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد پاکستان میں توانائی کی قلت کا مسئلہ حل ہوتا دکھائی دینے لگا، سپر گرڈ سے دنیا پھر کے دیگر حصوں سے صارفین کو قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سپر گرڈ کا نظریہ ہزاروں کلومیٹر پر ایک ہزار کلو واٹ سے زائد ہائی وولٹیج گرڈ کی تعمیر پر منحصر ہے، اس سے مختلف گرڈ سٹیشنوں، جزیروں کو آپس میں جوڑا جائے گا جس سے 10 گیگا واٹ سے بھی زائد بجلی اکٹھی ہونے کی امید ہے۔ بتایا گیا کہ سپر گرڈ کا یہ نظریہ دراصل ٹیلی کام اینڈ انٹرنیٹ سافٹ بینک گروپ کے بانی اور سربراہ ماسایوشی کا تھا، 2011 ء کے زلزلے کے بعد فوکو شیما نیو کلیئر پلانٹ کی تباہی سے ماسایوشی سن بہت پریشان تھے اور جلد ہی قابل تجدید توانائی کا انسٹی ٹیوٹ کھول لیا جس سے اس منصوبے اور قابل تجدید توانائی (Renewable Energy ) کے فروغ میں مدد ملی۔
ٹوکیو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہونے گزشتہ ہفتے سن نے بتایا کہ’ زلزلے کے وقت وہ قابل تجدید توانائی سے متعلق بالکل کچھ نہیں جانتے تھے لیکن شاید ان کی تکنیکی طور پر کم علمی نے ہی ایشیاء سپر گرڈ کی تعمیر تک پہنچنے میں مدد دی، ان کا نظریہ چین میں موجود صحرائے گوبی سے ہوا اور شمسی توانائی کا حصول تھا جس سے ہزاروں نیو کلیئر ری ایکٹرز کے برابر بجلی کا حصول متوقع ہے، لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ پاگل پن ہے، ایک سکیم کیلئے بہت وسیع اور سیاسی طور پر ناممکن ہے،۔ اُن کا کہنا تھا کہ ‘ جلد ہی وہ کوریا الیکٹرک پاور کمپنی اور سٹیٹ گرڈ کارپوریشن چین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، پھر جلد ہی روسی پاور کمپنی بھی شامل ہو گئی، اگلا مرحلہ بیجنگ میں ایک نان پرافٹ گلوبل انرجی انٹرکنکشن دیویلپمنٹ اینڈ کارپوریشن آرگنائزیشن کا قیام تھا جس کے سربراہ سٹیٹ گرڈ کے سابق چیئر مین لیوز ہینیا ہیں۔
اس آرگنائزیشن نے قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کر کے دنیا بھر کے الیکٹرک گرڈ کو جوڑ کر دنیا کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا اپنا مقصد قرار دیا۔