ترکی (نیوز ڈیسک)ترکی میں حکام کے مطابق جزیرہ شہر میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران لگایا گیا کرفیو سنیچر کو ختم کیا جا رہا ہے۔جمعرات کو ترکی وزارتِ داخلہ کے جزیرہ شہر میں آپریشن کے دوران 30 افراد ہلاک جن میں سے اکثریت کرد شدت پسندوں کی تھی جبکہ کرد نواز سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی’ ایچ پی ڈی‘ کے مطابق تشدد کے واقعات میں 20 عام شہری ہلاک ہوئے۔ترکی میں کرد باغیوں کے حملوں میں اضافہ کیوں؟جزیرہ شہر میں گذشتہ جمعے کو اس وقت کرفیو نافذ کیا گیا تھا جب وہاں فوج نے کرد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔جزیرہ کی مقامی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سنیچر کو پہلے اوقات میں ہی کرفیو ختم کر دیا جائے گا۔انتظامیہ نے شہریوں کا شکریہ ادا کیا کہ ’شدت پسند تنظیم‘ کے خلاف کامیاب آپریشن کے دوران انھوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔جمعرات کو پولیس نے ایچ ڈی پی کے رہنماو¿ں کے ایک وفد کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔اس سے پہلے شہر میں کرفیو کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ آپریشن کی وجہ سے وہ اپنے گھر سے نہیں نکل سکے کیونکہ شہر میں سرکاری ہسپتال کا شعبہ ایمرجنسی بند کر دیا گیا تھا اور دواخانے بند تھے۔ترکی کی حکومت کے مطابق جزیرہ کرد جنگجوو¿ں کا اہم ٹھکانہ ہے اور ان کے خیال میں شہر میں 80 پیشہ ور جنگجو سرگرم تھے جبکہ دو سو نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔دوسری جانب جمعے کو کرد اکثریتی شہر دیارباقر میں ایک کیفے پر حملے میں ایک ویٹر ہلاک اور تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ادھر ترکی کے جنگی جہازوں نے شمالی عراق میں کرد باغیوں کے ٹھکانوں پر مزید فضائی حملے کیے ہیں۔جمعرات کو جزیرہ شہر کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ جب سے فوج نے علاقے میں کرفیو نافذ کیا ہے اس وقت سے شہر محاصرے میں ہے۔اس شہر کو ’جزیرہ ابن عمر‘ بھی کہا جاتا ہے۔جمعرات کو پولیس نے ایچ ڈی پی کے رہنماو¿ں کے ایک وفد کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔یہ گروپ پیدل شہر جانے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں جماعت کے سربراہ صلاح?الدین دمیرتاش سمیت 30 ارکان پارلیمان شامل تھے۔اس وفد کے مطابق وہ دنیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ کرد اکثریتی شہر کی اس وقت کیا صورتحال ہے۔ترکی میں حالیہ دنوں کردوں کے حملوں میں متعدد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیںترکی میں کردوں کی عسکریت پسند تنظیم’ پی کے کے‘ اور ترکی کی فوج کے درمیان جھڑپوں میں اس وقت دوبارہ شدت آئی جب جولائی میں فائر بندی کا معاہدہ ناکام ہو گیا۔ترکی کے جنگی جہازوں نے شمالی عراق میں ’پی کے کے‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں جبکہ جنوب مشرقی علاقوں میں سکیورٹی سخت کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ترکی میں ’پی کے کے‘ کی سنہ 1984 میں آزاد کرد ریاست کے قیام کے لیے شروع کی جانے واکی تحریک کے دوران اب تک تشدد کے واقعات میں 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت اور پی کے کے میں 2013 میں فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا اور یہ رواں سال جولائی میں اس وقت ختم ہو گیا جب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے شامی سرحد کے قریب واقعہ شہر سوروچ میں خودکش حملہ کیا اور اس میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کرد نوجوانوں کی تھی۔