ہفتہ‬‮ ، 12 جولائی‬‮ 2025 

جوان بوڑھے اور بوڑھے جوان۔۔ حیرت انگیز تحقیق‎

datetime 6  جولائی  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی بھی انسان کی حقیقی عمر اپنی جگہ، عام مردوں اور خواتین کی حیاتیاتی عمر اصل سے بہت زیادہ یا کم بھی ہو سکتی ہے، یعنی جوان لوگ دراصل بہت بوڑھے اور بوڑھے بہت جوان بھی ہو سکتے ہیں۔امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکا ہی کے طبی ماہرین کی ایک نئی ریسرچ کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ لازمی نہیں کہ ایسا صرف بڑھاپے ہی میں ہو، بلکہ جوانی میں بھی عین ممکن ہے کہ عام مردوں اور خواتین کی حقیقی اور حیاتیاتی عمروں میں واضح فرق پایا جائے۔
اس مطالعے کے دوران ریاست شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 800 سے زائد ایسے افراد کی صحت کا تفصیلی جائزہ لیا، جن میں سے ہر ایک کی طبعی عمر 38 برس تھی۔ محققین کو پتہ چلا کہ ان زیر مطالعہ افراد میں سے کافی زیادہ کی انفرادی طور پر طبعی اور حیاتیاتی عمروں میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا تھا۔
اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور مطالعے کے نتائج مرتب کرنے والے ماہر ڈینئل بَیلسکی نے بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پتہ چلا کہ ان آٹھ سو سے زائد افراد میں سے کئی کی حیاتیاتی عمریں 40 اور 50 برس کے درمیان تھیں، متعدد کی حیاتیاتی عمریں 50 اور 59 برس کے درمیان نکلیں جبکہ ایک واقعے میں تو متعلقہ فرد کی حیاتیاتی عمر 61 برس نکلی حالانکہ طبعی طور پر ہر کسی کی عمر صرف 38 برس تھی۔
اس ریسرچ کے دوران متعلقہ افراد کے مختلف جسمانی اعضاء کی کارکردگی اور صلاحیت کا تعین کرتے ہوئے ان کی حیاتیاتی عمروں کا تعین کیا گیا۔ اس کے لیے ان افراد کے گردوں اور پھیپھڑوں کی فعالیت کے علاوہ ان کے بلڈ پریشر اور کھانا ہضم کرنے کے نظام تک کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا گیا۔ اس سے قبل انہی سینکڑوں زیر مطالعہ افراد کے ایسے جسمانی اعضاء اور عوامل کا اس وقت بھی مطالعہ کیا گیا تھا جب ان میں سے ہر ایک کی طبعی عمر پہلے 22 اور پھر 32 برس تھی۔
آخری مرحلے میں جب اس تحقیق میں حصہ لینے والے ہر شہری کی طبعی عمر ٹھیک 38 برس ہو گئی، تو ان کی حیاتیاتی عمروں کا تعین کیا گیا۔ اس پر ماہرین کو پتہ یہ چلا کہ اگر بہت سے افراد کی حیاتیاتی عمریں پچاس اور ساٹھ برس تک تھیں تو کئی شہریوں کی یہی عمریں 32، 30 اور 28 برس تک بھی پائی گئیں۔
ڈینئل بَیلسکی کے بقول انسانوں میں اکثر بیماریوں کی وجہ بڑھاپا بنتا ہے اور اس ریسرچ کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے اس بڑھاپے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے جو طبعی جواں عمری میں آنا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کے اس محقق نے کہا، ’’موجودہ طبی سائنس میں زیادہ توجہ مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے اس بڑھاپے یا ضعف پر دی جاتی ہے جو بزرگ شہریوں میں نظر آتا ہے۔ اب جوانوں میں ضعف اور بڑھاپے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کان پکڑ لیں


ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…