تہران (این این آئی)حالیہ مہینوں کے دوران ایرانی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ان مظاہروں کے دوران کرنسی مجموعی طور پر بیس فیصد گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایران کے مرکزی بنک نے ایرانی کرنسی کا ریکارڈ نیچے گرجانے کی ذمہ داری ان مظاہرین پر عائد کی ہے جو مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایرانی حکومت کے خلاف مسلسل احجاج کر رہے ہیں۔
پولیس ہلاکت میں ہلاک ہونے والی کرد ایرانی لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظارے چوتھے مہینے میں داخل ہو چکے ہیں اور اب تک ان مظاہروں کے دوران سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور ہزاروں گرفتار کیے جا چکے۔کئی افراد کو ایرانی عدالتوں نے سزائے موت سنائی ہے اور اور امریکہ و یورپی ممالک نے پابندیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ نتیجتا ایرانی کرنسی کی گراوٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔اس ماحول میں ایران کے مرکزی بنک کے سر براہ ملکی معیشت کو لگنے والے اس بڑے دھچکے کی ذمہ داری مظاپرین پر ڈال دی ہے۔ جبکہ کرنسی کے گرنے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے۔دوسری جانب ایرانی حکام نے ایک ممتاز ایرانی اداکارہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس ادا کاراہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مظاہرین کی حمایت میں آواز بلند کر رہی تھی۔ اس سے قبل بھی ایرانی حکام کئی اداکاروں اور اداکاراوں کو حراست میں لے چکی ہے۔بائیس سالہ مہسا امینی کی پلاکت کے بعد ایران میں بد امنی کا ایسا ماحول 1979 کے بعد پپہلی بار سامنے آیا ہے۔
ایرانی حکومت ان مظاہرے کے پیچھے ‘ اپنے روایتی غیر ملکی دشمنوں’ کو قرار دیتی ہے۔ جو انسانی حقوقو کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور مظاہرین کی رہائی کی بات کرتے ہیں۔اتوار کے روز ایرانی حکام نے علی دوستی نامی اداکارہ کو حراست میں لیا۔ علی دوستی ‘ سیلزمین’ نامی فلم میں ہیروئن آچکی ہیں اور دوہزار سولہ میں غیر ملکی زبان میں بننے والی بہترین فلم کی وجہ سے ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔علی دوستی کے بارے میں سرکاری خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ وہ اپنے مظاہروں میں ملوث ہونے کا ثبوت نہ پیش کر سکنے کے بعد گرفتاری ہوئی۔
بتایا گیا ہے شوبز سے متعلق اور بھی بہت ساری شخصیات کو حکام نے سمن جاری کیے ہیں۔ علی دوستی 2020 میں بھی ایران کی اخلاقی پولیس کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی۔ایرانی مرکزی بنک کے سربراہ علی صالح آبادی نے تسلیم کیا ہے کہ پچھلے دوماہ کے واقعات کے حوالے سے تسلیم کیا ہے کہ ان کی وجہ سے کرنسی نیچے گر گئی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر ‘ انجیکٹ ‘ کیا جائے گا تاکہ مشکل میں گھرے ایرانی ریال کو سبھالا دیا جا سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مرکزی بنک ‘مارکیٹ میکر’ اور ‘ پالیسی میکر ‘ کے طور پر کام کرے گا۔ سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مرکزی بنک کے سربراہ نے کہا ہم مارکیٹ میں ‘ ہارڈ کرنسی کی ضروریات پوری کریں گے۔’واضح رہے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت جمعہ کے روز کے مقابلے میں 1،2 فیصد اوپر گئی ہے۔ جبکہ حالیہ مظاہروں کے دوران ایرانی ریال کی قدر میں بیس فیصد کمی ہو چکی ہے۔