اسلام آباد (این این آئی )سندھ اور بلوچستان میں رواں سال 6 دہائیوں کے سب سے زیادہ تباہ کن مون سون اسپیلز کے دوران 1961 کے بعد سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق معمول سے زیادہ بارشوں کی یہ شرح سندھ میں 522 فیصد اور بلوچستان میں 469 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔تازہ اعداد و شمار محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں
جس نے حکام کو حیران کر دیا ہے، ماہرین ماحولیات بھی ان اعدادوشمار کی بنیاد پر انتباہ جاری کررہے ہیں جنہوں نے اسے حکام کے لیے نئے چیلنجز کا آغاز قرار دیا ہے۔محکمہ موسمیات کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سندھ میں جولائی میں مون سون کے موسم کے آغاز سے اب تک 680.5 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے، یہ معمول سے 522 فیصد زیادہ ہے کیونکہ تناسب اور طے شدہ معیارات کے مطابق سندھ میں عام طور پر مون سون کے موسم میں 109.5 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح بلوچستان میں مون سون کے ہر موسم میں اوسطاً 50 ملی میٹر بارش ہوتی ہے تاہم اس میں اب تک 284 ملی میٹر یعنی 469 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں رواں سال مون سون میں اب تک مجموعی طور پر 207 گنا زیادہ بارش ہوئی ہے اور یہ موسم ستمبر کے آخر تک جاری رہے گا۔انہوں نے بتایا کہ نوشہرو فیروز ضلع کے قصبے پڈعیدن میں جولائی سے اب تک 1 ہزار 722 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے، سندھ کے کسی قصبے میں کبھی بھی یہ مقدار ریکارڈ نہیں کی گئی۔انہوں نے ان اعداد و شمار کا حوالہ دیا جن کے مطابق سندھ اور بلوچستان نے آخری بار 1994 میں ایسی طوفانی بارشیں دیکھی تھیں جو 1961 کے بعد سے سب سے زیادہ بارشوں کے طور پر ریکارڈ کی گئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ 1994 میں سندھ میں 502.6 ملی میٹر بارش ہوئی تھی جو کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی ماڈیولز کی بنیاد پر اس وقت کے تناسب کے مطابق معمول سے 276 فیصد زیادہ تھی، اسی سال بلوچستان میں 175 ملی میٹر بارش ہوئی جو کہ وہاں کے معمول سے 52 فیصد زیادہ تھی۔ملک کے دیگر حصوں میں بھی رواں سال یہی صورتحال نظر آئی، محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق
گلگت بلتستان میں اب تک 2 ماہ میں 50.3 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جو کہ معمول سے 99 فیصد زیادہ ہے اور پنجاب میں 349 ملی میٹر بارش ہوئی جو کہ مون سون میں ہونے والی معمول کی بارش سے 90 فیصد زیادہ ہے، خیبرپختونخوا میں معمول سے 31 فیصد زیادہ بارش ہوئی جہاں اب تک 257.4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جاچکی ہے۔آزاد جموں و کشمیر ملک کا واحد خطہ ہے
جہاں رواں سال مون سون میں اوسط سے کم بارش ہوئی، یہاں 279.6 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ یہاں کے معمول سے 7 فیصد کم ہے۔اس صورتحال نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے کیونکہ حکام اور ماہرین کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب آنے والا چیلنج نہیں رہا بلکہ یہ آ چکا ہے۔سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، اب جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ درحقیقت ان واقعات کا تسلسل ہے جو کافی عرصے سے شروع ہوچکے تھے، مثلاً پاکستان میں بہار تقریباً ختم ہو چکی ہے، ہم نے رواں سال بہار نہیں دیکھی، انتہائی سخت سردیوں کا سامنا کرنے کے بعد دیہی علاقوں میں ہم نے ایک کے بعد ایک ہیٹ ویو کے ساتھ انتہائی شدید گرمی بھی دیکھی۔
ڈاکٹر غلام رسول نے سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی وجہ زمین کی ساخت کی بجائے بڑے پیمانے پر تباہ کن بارشوں کو ہی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہاڑی مٹی سیلابی صورتحال کو مزید بگاڑنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسی سطح پر پانی جذب نہیں ہو سکتا لیکن سندھ کے کسی بھی حصے میں اس کی ایسی کوئی وجہ نہیں ہے۔ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ
ایک اور پہلو جو اس آب و ہوا کے مسئلے کو مزید بڑا چیلنج بناتا ہے وہ بڑھتی ہوئی آبادی اور ایک بہتر اور ماحول دوست ماحولیاتی نظام کے لیے تیزی سے سکڑتی ہوئی جگہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ہماری زرعی زمین شہری آباد کاری اور تعمیرات کے لیے استعمال ہو رہی ہے، آپ سادہ اعداد و شمار سے اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1951
میں پاکستان میں ایک شخص کے لیے ساڑھے 5 ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا، یہ مقدار اب کم ہو کر 850 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچادی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے ،تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری رہا جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی، کوئٹہ میں خواتین اور بچوں سمیت 500 سے زائدافرادسیلابی پانی میں پھنس گئے۔شدید بارشوں کے باعث شہر میں بجلی اور گیس کی فراہمی کا نظام مکمل طور پر ناکام ہوگیا جبکہ مواصلاتی نظام میں بھی خلل آگیا ہے
۔صورت حال کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر نے کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے کلی ناصران کے مکینوں کوبائی پاس کی طرف نکلنے کی ہدایت دے دی۔اس کے علاوہ شدید بارشوں کی وجہ سے کوئٹہ کا زمینی، فضائی اور مواصلاتی رابطہ گزشتہ کئی گھنٹے منقطع رہا،موبائل فون بند اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی جبکہ کوئٹہ کا پی ٹی سی ایل نیٹ ورک بھی بند ہوگیا اور گراؤنڈ انٹرنیٹ بھی کام نہیں کر رہا۔
میڈیا رپوٹر کے مطابق آئی جی بلوچستان، کمشنر، ڈی آئی جی کوئٹہ سمیت کسی بھی اعلیٰ آفس سے رابطہ نہیں ہو رہا ۔ذرائع کے مطابق شدید موسم کی خرابی کی وجہ سے پی آئی اے کی کوئٹہ کے لیے لاہور اور کراچی کی پروازیں معطل ہوگئیں۔دوسری جانب بی اے پی کی سینیٹر ثنا جمالی نے کہا کہ بارش اور سیلاب سے بلوچستان کا 90 فیصد حصہ متاثر ہے ،
صوبے میں مواصلاتی نظام متاثر ہے جس کی وجہ سے رابطوں میں مشکلات ہیں جبکہ خراب موسم کے باعث بلوچستان کے لیے فلائٹ آپریشن بھی معطل ہے۔ثنا ء جمالی نے کہا کہ پاک فوج اور پی ڈی ایم اے امدادی اور ریلیف آپریشن میں بہتر کام کررہے ہیں، بلوچستان میں متاثرین کے لیے غذائی اشیاء اور ادویات کی اشد ضرورت ہے،
سیلاب کے پانی سے لوگوں میں بیماریاں بڑھ رہی ہیں، دوا ساز کمپنیوں سے اپیل ہے کہ متاثرین کے لیے ادویات فراہم کریں جب کہ سیلاب متاثرین کے لیے خیموں کی بھی فوری ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ فائبر آپٹک اور ٹاور متاثر ہونے سے 70 فیصد مواصلاتی نظام خراب ہوگیا ہے۔