ملتان (نیوزڈیسک) الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 (لودھراں)میں مبینہ دھاندلی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے جبکہ کامیاب امیدوار صدیق بلوچ کو ناہل قرار دے دیاہے۔ جسٹس( ر)زاہد حسین پر مشتمل الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 کے امیدورا جہانگیر ترین کی درخواست پر انتخابات کو کالعدم قرارد ینے کا فیصلہ سنایا۔ اس حلقہ سے آزاد امیدوار صدیق بلوچ کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے بعد میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔صدیق بلوچ کے مخالف امیدوار پی ٹی آئی کے جہانگیر خان ترین نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔جہانگیر خان ترین کا یہ بھی موقف تھا کہ صدیق خان بلوچ کی بی اے کی ڈگری بھی جعلی ہے۔فیصلہ کے فوری بعد عمران خان نے فون پر جہانگیر ترین کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ پی ٹی آئی کی ایک اور سیاسی فتح ہے عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے بھی ٹویٹر پر ییغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہیٹ ٹرک کر لی ۔الیکشن ٹربیونل نے دونوں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 20اگست کو پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔الیکشن کمیشن نے2013میں ہونے والے عام انتخابات میں جہانگیر ترین کے حریف آزاد امید وار محمد صدیق خان بلوچ کو کامیاب قرار دیا تھا۔ ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن)کا امیدوار بھی موجود تھا جو تیسرے نمبر پر رہا تھا۔جہانگیر ترین نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو دوبارہ گنتی کی درخواست دی ۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں صدیق بلوچ کو تقریبا ایک ہزار ووٹوں کی مزید برتری حاصل ہوگئی، لیکن جہانگیر ترین نے ری کاونٹنگ کا بائیکاٹ کردیا اور الیکشن ٹریبونل ملتان میں انتخابی عذر داری دائر کردی ، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ انتخاب میں دھاندلی اور بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور صدیق بلوچ کی ڈگریاں جعلی ہیں ،لہذا انہیں نااہل قرار دے کر جہانگیر ترین کو کامیاب قرار دیا جائے۔انتخابی عذرداری کی پہلی سماعت 15اگست 2013 کو ہوئی۔21مئی 2014کو الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس(ر)رانا زاہد محمود نے ووٹوں کےانگوٹھوں کی نادرا سے تصدیق کا حکم دیا، جس پر صدیق بلوچ نے ملتان ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیا ۔ حکم امتناع کے خلاف جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 6 جون 2014کو سپریم کورٹ نے ملتان ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کردیا اور الیکشن ٹریبونل ملتان کا حکم برقرار رکھا۔28اکتوبر 2014کو نادرا نے انگوٹھوں کی تصدیق کی 7سو صفحات پر مشتمل رپورٹ الیکشن ٹریبونل میں جمع کرادی۔ رپورٹ کے مطابق حلقہ کے 290پولنگ اسٹیشنوں پر 2لاکھ 18ہزار 256ووٹ کاسٹ ہوئے۔ایک لاکھ 22ہزار 133ووٹ ایسے تھے جو غیر معیاری سیاہی اور انگوٹھوں کے مناسب نشان نہ ہونے کی وجہ سے شناخت نہیں ہوسکے تاہم شناختی کارڈ نمبر درست تھے۔20601 ووٹوں کی کاونٹر فائل پر شناختی کارڈ نمبر یا تو تھے نہیں یا پھر درست نہیں پائے گئے۔728افراد نے دو مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا۔578ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشان نہیں تھے۔121ایسے ووٹ تھے جن کا حلقے میں اندراج نہیں تھا۔رپورٹ میں 73707ووٹوں کو درست قرار دیاگیا۔الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان نے نعرے لگائے اور ایک دوسرے میں مٹھائیاں تقسیم کیں۔ نجی ٹی وی صدیق خان بلوچ کا کہنا تھا کہ بدانتظامی کا ذمہ دار انتخابی عملہ ہے اور اس کا نزلہ امیدواروں پر گرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو انگوٹھے نادرا کے پاس جانچ کے لئے گئے اور جب ایک پولنگ اسٹیشن میں 1500ووٹ ڈالے جار رہے ہوں تو جلدی میں اگر الف اور ب کا بھی فرق آ جائے تو نادرا اس ووٹ کو کالعدم قرار دے دیتا ہے جب کہ سیاہی کے حوالے سے نادرا متعدد بار کہہ چکا ہے کہ اس سیاہی کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری جانب صدیق خان بلوچ کے بیٹے ذبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔