کراچی(نیوزڈیسک) عمران خان ایک مقبول رہنما ہیں ، لیکن وہ پنجاب میں شریف برادران کیلئے، لاہور کے حلقوں کے حوالےسے الیکشن ٹریبونلز کے پےدرپے2فیصلوں کے باوجود کس قدر سنگین چیلنج بن سکتے ہیں،اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے، ان فیصلوں سے ان کی سیاست کو تقویت ملے گی ۔ اب یہ سیاست زمان پارک بمخالف رائیونڈ ہے ، جوکہ ملک کی سیاسی سمت کا تعین کریگی۔ این اے 125 میں ن لیگ کے رہنماخواجہ سعد رفیق کو ابتدائی طور پر کامیابی ملی تھی اور این اے 122میں سردار ایاز صادق جیتے تھے اور بعد میں وہ قومی اسمبلی کےاسپیکر بنے۔ یہ حلقہ ان چار حلقوں میں شامل ہے ، جن پر دھاندلی کا الزام لگاکر انہوں نے سوال اٹھایا تھا۔ روزنامہ جنگ کے سیاسی تجریہ کارمظہرعباس کے مطابق خواجہ سعد رفیق کی نشست کے بارے میں فیصلہ تقریباً 2 ماہ پہلے آیا اور ایاز صاد ق کا دھچکا ہفتے کو لگا۔ دونوں نشستوں کا مستقبل ہونا ابھی بیچ میں لٹکا ہوا ہے ، لیکن الیکشن ٹریبونلز نے ان دونوں حلقوں میں انتخابات کالعدم قرار دیئے ہیں ۔ دیگر 2 نشستوں پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے اور اگر ان کا فیصلہ بھی سابقہ فیصلوں سے مختلف نہ ہوا تو یہ ایک اور تحریک کیلئے عمران خان کا لا نچنگ پیڈ ثابت ہوگا۔ دوسری جانب اگر ن لیگ کے رہنما سپریم کورٹ میں قانونی جنگ جیت جاتے ہیں تو پھر یہ عمران خان کیلئے ایک اور دھچکا ثابت ہوگا، جوکہ ہفتے کے روز تک جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے لگنے والے دھچکےسے سنبھل نہ سکے تھے، اگرچہ وہ رپورٹ آنے کے 24گھنٹے کے بعد اس دھچکے سے سنبھل گئے تھے ۔ 2011میں لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کے بعد عمران خان کی سیاست اور مقبولیت نے یقیناً شریف برادران کو حیران کردیا تھا، لیکن 2013کے انتخابات میں شریف برادران نے اقتدار دوبارہ حاصل کیا اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے جوکہ ایک ریکارڈ ہے ۔ حلقہ این اے 125اور 122کی اہمیت محض علامتی نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق لاہور میں شریف برادران کے بعد ن لیگ کے طاقتورترین رہنماؤں سے ہے۔ لہٰذا، الیکشن ٹریبونلز کے 2 فیصلوں سے شریف برادران کیلئے مشکلات کھڑی ہوئیں، جنہوں نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد حالیہ دنوں تک قانونی اور اخلاقی فتح کا جشن منایا تھا، اس سے ان کا یہ موقف بھی ثابت ہوا تھاکہ نہ ہی ن لیگ کیلئے کوئی منظم دھاندلی ہوئی اور نہ ہی اس وہ بے ضابطگیوں میں ملوث تھی۔ اگر چہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم کرلیا تھا لیکن انہوں نے شریف برادران پر تنقیدی حملے جاری رکھے اور ہفتے کے روز الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنے کے بعد انہوںنے اپنا پرانا موقف دہرایا کہ ن لیگ، الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کی اور اس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ یہ بات تحریک انصاف کی جانب سے تحریری طور پر کیے جانیوالے معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔ اس لیے جوڈیشل کمیشن کا معرکہ ہارنے کے بعدانہوں نے ن لیگ پر دباؤ جاری رکھا۔ عمران خان قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہ جاکر اور پارلیمنٹ کے خلاف تحقیر آمیز بیانات دے کر اپنے پارٹی کے رہنماؤں کو خود حیرا ن کرتے رہے ہیں۔ لیکن پھر یہ عمران خان کا طرز سیاست ہے اور وہ جوڈیشل کمیشن کی شکست سے باہر آنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے مستقل یوٹرنزکے باعث پارٹی کے اندر اور باہر کئی سوالات کھڑے ہوئے ۔ ان کی جانب سے دوبارہ دھرنے کا اعلان ناصرف ان کے سابقہ بیان سے متصادم ہے ، جس میں انہوں نےکہا تھاکہ وہ کبھی دھرنا سیاست کا راستہ اختیار نہیں کرینگے، بلکہ اس سے ان کی جماعت ایک اور امتحان میں بھی مبتلا ہوجائے گی۔ عمران خان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہےکہ اگر الیکشن کمیشن کے تمام ارکان اور اس کے سربراہمستعفی ہوجائیں تو بھی انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ نئے الیکشن کمشنر کو اسی پارلیمنٹ سے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے نامزد کیا جاناہوگا۔ دوسری بات یہ ہےکہ 18ویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کے سربراہ کا ’ مسترد ‘ کرنے کے اختیار کو واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ عمران خان کے طرز سیاست کا ہی شاخسانہ ہےکہ تحریک انصاف میں نچلی سطح تک بھی داخلی اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں لیکن پھر بھی وہ اسی بات پر یقین ہے ہیں ، جن کا یقین ان کے اطراف کے لوگ انہیں دلاتے ہیں۔ انکے کرکٹ کریئر کو مد نظر رکھاجائےتو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطرات سے کھیلنے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ عمران خان کو دیگر اپوزیشن جماعتوں اور اپوزیشن لیڈرز پر سبقت حاصل ہے ، لیکن جب عمران خان بمخالف شریف برادران کی بات آتی ہے تو شریف برادران ، وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، کا اب بھی مستحکم کنٹرول نظر آتا ہےلیکن قومی اسمبلی کے2 حلقوں کے بارے میں الیکشن ٹریبونلز کے گزشتہ فیصلوں نے انہیں پریشان ضرور کیا ہے، کیونکہ دونوں فیصلے لاہور کے حلقوں کے تھے ۔ این اے 122کے دورس نتائج کی پیشنگوئی کرنا قبل از وقت ہے لیکن جب تک ایاز صادق اور خواجہ سعد سپریم کورٹ میں اپنی اپیلوں کامیاب نہیں ہوجاتے اس وقت تک شریف برادران ، عمران خان کو ایک سنگین چیلنج سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو اب جہانگیر ترین اور حامد خان کے حلقوں کے فیصلوں کا شدت سے انتظار ہے ۔ وہ بالخصوص جے ٹی سیٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی کے پرانے رہنما حامد خان پر اب مہربان نہیں رہے۔ تو عمران اب کیا کرینگے؟ پارٹی کے کچھ رہنما اور ان کے نقاد سمجھتے ہیں کہ کپتان کی حکمت عملی خود ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے پارٹی سے مشاورت کیے بغیر نئے دھرنے یا اپیل پر فیصلہ آنے کا انتظار کرنےکا اعلان کیا۔ الیکشن کمیشن کو دو ہفتے کی ڈیڈلائن دے کربصورت دیگر ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کرکے عمران خان نے دراصل شریف برادران کو ’ فری ہٹ‘ دیدی ہے ۔ ماضی میں بھی انہوں نے پارٹی کی سینٹر ل کمیٹی سے اپنے منصوبوں کی منظوری لی اور نہ ہی مشاورت کی۔ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہےکہ اسے عمران خان کے قریبی افراد کے ایک گروپ کی جانب سے چلایا جارہا ہے ، لیکن ان کی بے مثال مقبولیت کے باعث تحریک انصاف میں باشعور افراد خاموش رہتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ کئی وجوہات کی بناء پراین اے 122کو جیت کر اپنے پاس رکھنا چاہینگے کیونکہ 1) انہوں نے لاہور کو اپنی سیاسی بیس بنانے کا پہلے ہی فیصلہ کررکھا ہے اور ہفتے ہی کو انہوں نے لاہور میں چیئرمین سیکریٹریٹ کا افتتاح کیا،2) وہ جانتے ہیں کہ یہ شریف برادران کا آبائی علاقہ ہےاور یہاں وہ ان کی مقبولیت کا ختم کرنا چاہتے ہیں، 3) لاہور پنجاب کا دل ہے، اور ہمار ے سیاسی نظام میں پنجاب جیتنے کا مطلب پاکستان جیتناہے،4) عملی طور پر یہ عمران خان کا آبائی علاقہ ہے، انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن زمان پارک میں گزارے۔ لاہور کو سیاسی بیس بنانے کے ان کے فیصلے نے ان کے دیگر حریفوں ، جیسے گجرات کے چوہدریوں کوبھی پریشان کردیا ہے ، جوکہ گزشتہ دنوں تک اپنی پارٹی کو نقصان پہنچانےکے حوالےسے تحریک انصاف پر تنقید کررہے تھے ۔ 2008میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور کو اپنی سیاسی بیس بنانے کا اعلان کیا ، وہ محض شہر میں ایک بڑا بلاول ہاؤس بناسکے لیکن عملی طور پر انہوں نے پارٹی کو دفنا دیا۔ بلاشبہ سیاسی صورتحال اب بھی دو جماعتی نظام کی جانب گامزن ہے لیکن اس مرتبہ تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کی جگہ لےلی ہے ، جبکہ گزشتہ کچھ برسوں میں ن لیگ نے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کیا ہے ، اس لیے آئندہ عام انتخا با ت سے قبل اگر پنجاب کے نہیں تو لاہورسے پیپلزپارٹی کے چند بڑے رہنما تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں تو مجھے اس پر حیرت نہیں ہوگی۔ شریف برادران کو 1980 کی دہائی سے اب تک اتنے سنگین سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس مرتبہ کسی نے انہیں حقیقی چیلنج دیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے شخص نے جوکہ لاہور کے زمان پارک سے تعلق رکھتا ہے۔ 22اگست2015یقیناً عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا دن تھا، جب کئی گھنٹوں کے صبر آزما انتظار کے بعد الیکشن ٹریبونل کے جج کاظم ملک نے این اے 122 کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دیا۔ 2013میں اس نشست سے کامیاب ہونے والے شخص کوئی عام رہنما نہیں بلکہ معزز سردار ایاز صادق تھے ، جوکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی تھے ، یہ نشست اب خالی ہے۔ اگر یہ فیصلہ عمران خان کے خلاف جاتا تو اس سے ان کی سیاست اور تحریک انصاف کو شدید نقصان پہنچتا، اوریہ 2002کی پوزیشن پر واپس چلی جاتی۔ اگر چہ ہفتے کے روز ملک میں بہت کچھ ہوا ، جس میں پاک بھارت مجوزہ مذاکرات سے ایم کیوایم کی جانب سے اسمبلیوں میں واپس نہ آنے کا خطرہ ہو نےتک شامل تھا، لیکن شریف برادران شدت کے ساتھ اپنی رہائش گا ہ پر این اے 122کے حوالےسے فیصلے کا انتظار کررہے تھے اور جلد ہی انہوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا، جیساکہ انہوں نے خواجہ سعد رفیق کے کیس میں کیا تھا۔ یہ فیصلہ عمران خان کیلئے کسی خواب کے پورا ہونے کے برابر ہے جوکہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے لگنے والے دھچکے سے سنبھلے نہیں تھے ، جس نےان کے تینوں ہی دعوؤں کو مسترد کردیا تھا۔ اب انہیں ہی آگے بڑھ کردرج ذیل میں سے انتخاب کرنے کی ضرورت ہے، کہ انہیں انتخابی اصلاحات کرنی ہیں، پارٹی کو منظم کرنا ہے، بلدیاتی انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھانے کیلئے اقدامات کرنے ہیں ، شریف برادران پر دباؤ برقرار رکھنا ہے یا دھرنا سیاست کو دوبارہ شروع کرنا ہے ،ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کرنا ہے یا پھر امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنا ہے ۔ ایک بات یقینی ہےکہ عمران خان بنی گالہ کے مقابلے میں زمان پارک سے شر یف برادران کیلئےزیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
نوازشریف پریشان،عمران کو دوفیصلوں کا انتظار

ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
بے ہوش خاتون کو ہسپتال لے جاتے ہوئے ایمبو لینس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ ...
-
ایک اورملک نے پاکستانیوں کیلیے ویزا فری انٹری کر دی
-
چنکی پانڈے کے بیٹے کی ڈیبیو فلم ’سیارہ‘ کی تاریخی کامیابی کی وجہ کیا بنی؟
-
سچا اور کھرا انقلابی لیڈر
-
یکم اگست سے اسکولوں کے نئے اوقات کار جاری
-
کسٹمز کی کارروائیاں، 7 من سے زائد اسمگلڈ سونا ضبط
-
ایک بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 100 ملین ڈالر ڈوبنے کی ...
-
عمران خان کی بہنوں سے خطرات ، جمائمہ نے قاسم اور سلیمان کو ایک مرتبہ ...
-
بابوسر میں 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، سیاحتی وادی میں مکمل خاموشی
-
معروف ماڈل نے فلم پریمیئر پر پروڈیوسر کی چپل سے دھلائی کردی
-
پی ٹی اے نے 8 لاکھ سے زائد موبائل فونز بلاک کر دیے
-
تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کی بیٹے اور ساتھیوں سمیت ( ن) لیگ میں ...
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
بے ہوش خاتون کو ہسپتال لے جاتے ہوئے ایمبو لینس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا
-
ایک اورملک نے پاکستانیوں کیلیے ویزا فری انٹری کر دی
-
چنکی پانڈے کے بیٹے کی ڈیبیو فلم ’سیارہ‘ کی تاریخی کامیابی کی وجہ کیا بنی؟
-
سچا اور کھرا انقلابی لیڈر
-
یکم اگست سے اسکولوں کے نئے اوقات کار جاری
-
کسٹمز کی کارروائیاں، 7 من سے زائد اسمگلڈ سونا ضبط
-
ایک بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 100 ملین ڈالر ڈوبنے کی خبریں
-
عمران خان کی بہنوں سے خطرات ، جمائمہ نے قاسم اور سلیمان کو ایک مرتبہ پھر پاکستان جانے سے روک دیا
-
بابوسر میں 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، سیاحتی وادی میں مکمل خاموشی
-
معروف ماڈل نے فلم پریمیئر پر پروڈیوسر کی چپل سے دھلائی کردی
-
پی ٹی اے نے 8 لاکھ سے زائد موبائل فونز بلاک کر دیے
-
تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کی بیٹے اور ساتھیوں سمیت ( ن) لیگ میں شمولیت
-
ہانیہ عامر اور عاشر وجاہت کی متنازع ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دوستی ختم ہوگئی
-
حیدرآباد، ایک دلہن کو لینے تین دلہا تھانے میں پہنچ گئے، چونکا دینے والے انکشافات