اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخودنوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے،ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے، بتایا جائے اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کونسا دن دیا،
تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے،سپیکر کی طرف سے ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی،سپیکر کس سٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟سپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا،کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو،سپیکر کس سٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟سپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا،ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے،اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی،پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا،اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلاء نے دینا ہے۔معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے آغاز میں وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ عدالت میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں، عدالت کے 21 مارچ کے حکم کی جانب توجہ مبذول کرونا چاہتا ہوں،21 مارچ کو سپریم کورٹ بار کی درخواست پر دو رکنی بنچ نے حکمنامہ جاری کیا تھا،کل پارٹی کی ہدایات نہیں لی تھی۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ ہم درخواست گزاروں کو پہلے سنا چاہتے ہیں،پی ٹی آئی کے کونسل اگر کوئی سٹیٹمنٹ دینا چاہتا ہے تو دے دیں۔ جس پر بابر اعوان نے میں سپریم کورٹ کے 21 مارچ کے 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں،
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی،کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دئیے کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا ،عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں ،اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی وزیراعظم والا طریقہ کار لاگو ہوتا ہے ،عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی،تمام اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ
معاملہ کی سماعت کے لئے دس رکنی لارجر بینچ بنایا جا?۔ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہو? ریمارکس دئیے کہ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے،اگر آپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں ہم اٹھ جاتے ہیں،ایک فل کورٹ کی وجہ سے دس لاکھ کیسز کا بیک لاگ ہوا،آپکو اپنے کیس کی کیا پریشانی ہے؟عدالت کو تعین کرنے دیں کہ کونسا سوال کتنا اہم ہے،فل کورٹ
کی گزشتہ سال 63 سماعتیں ہوئیں،آپکو بنچ پر اعتراض ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں،فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں،گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے دس ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا، معاملہ پر آج ہی مناسب حکم جاری کرینگے۔اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے واضح کیا کہ انہیں بینچ کے کسی ممبر پر کوئی اعتراض نہیں۔ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں،آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی اجلاس بلانے کی
ریکوزیشن جمع کرائی،سپیکر 14 دن میں اجلاس بلانے کے پابند تھے،سپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس بلایا،سپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے،ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے،اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سے سوال کیا،فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ جاری کر دی، اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت
نہیں دی،31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی،3 مارچ کو اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا،27 مارچ کو عمران خان نے جلسہ میں غیر ملکی لہرایا،عمران خان نے الزام لگایا کہ اپوزیشن کے غیر کی سازش کا حصہ ہے،31 مارچ کو نیشنل سیکورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا،اسپیکر نے قرار داد کی اجازت دیکر معاملہ پر 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کردیا،پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہو سکتی تھی،سپیکر کو معلوم تھا کہ غیر قانونی قدم ہے
اس لئے وہ موجود نہیں تھے،ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے،یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے،رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں،ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے،قائمقام سپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے،جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا،ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان کو غدار قرار دیدیا،سات دن میں ووٹنگ ہونا تھا، 4 اپریل آخری دن
بنتا تھا،تین اپریل کو ووٹنگ کیلئے اجلاس بلایا گیا تھا،3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھا،دوسرا کوئی ایجنڈا کاروائی کے اہجنڈے میں شامل نہین تھا،ایوان میں ووٹنگ کیلئے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے،پی ٹی آئی کے ارکان نے ووٹ تو نہیں ڈالا،اپوزیشن کے 175 ارکان موجود تھے،تحریک عدم اعتماد تین منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،تحریک عدم اعتماد
پر ووٹنگ کے دن اسکی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہو سکتا،تحریک عدم اعتماد کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہوسکتا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اس کی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہو سکتا،تحریک عدم اعتماد کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہو سکتا ہے،ڈپٹی اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دینے کیلئے بااختیار
نہیں تھے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اس کی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہو سکتا،تحریک عدم اعتماد کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہو سکتا ہے،ڈپٹی اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دینے کیلئے بااختیار نہیں تھے،تحریک 20 فیصد سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے کی منظوری دینے پر ہی مسترد ہو سکتی ہے،اسپیکر کسی صورت تحریک عدم
اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا،آرٹیکل 5 کے سہارے بھی تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی،تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے،تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے،تحریک عدم اعتماد 20% سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے کی منظوری دینے پر ہی مسترد ہو سکتی،سپیکر کسی صورت تحریک عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا،آرٹیکل 5 کے سہارے بھی
تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی،پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی اور کالعدم بھی،عدالت کل تک کا وقت دے تو پارلیمانی کارروائی کے تحفظ کے نقطے پر مطمئن کروں گا،پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی اور کالعدم بھی۔رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے،صدر نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے نگران حکومت کیلئے نام مانگ رہے ہیں،تین دن میں آئین کے
مطابق نام دینا لازمی ہیں،تمام نظریں عدالت پر ہیں آج ہی سماعت مکمل کریں،چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا آج دو گھنٹے آپکو سنا ہے، آپ تمام وکلاء دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر سکتے تھے،ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ اہم آئینی نقطہ ہے جس پر فیصلے کے دور رس نتائج ہونگے،دوسرے فریق کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہو جائے،آج ہی سن کر
فیصلہ دینا ممکن نہیں۔جسٹس منیب اختر نے دوران سماعت سوال اٹھایا کہ کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا گیا؟ کیا آرڈر آف دی ڈے تب جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو ،کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے ؟کیا 10 مارچ اڈرز آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں ،کیا 10 مارچ اڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا ؟سپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانے کی وجوہات بھی جاری کی تھیں،وجوہات درست تھیں یا نہیں اس پر آپ
موقف دے سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی اجازت پر سات دن کی معیاد شروع ہو جاتی ہے،اگر ممبران کی اکثریت کہتی ہے تحریک پیش نہ ہو تو کیا تحریک کی وقعت نہیں ہو گی؟اگر اکثریت 100 ممبران کی ہے اور 50 کہتے ہیں تحریک پیش ہو اور 50 کہتے ہیں نہ ہو تو کیا تحریک پیش ہو گئی،کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا،اگر اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے ،اگر
اسپیکر عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دیں، پھر کیا ہوگا،سپیکر نے کس رول کے تحت رولنگ جاری کی ہے؟فواد چوہدری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے،کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے،رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے،سپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے،کیا سپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟ ڈپٹی اسپیکر رولز کے مطابق
اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے، میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا،198 ارکان میں کیا پی ٹی آئی کے ارکان بھی شامل تھے،رولنگ قواعد کے خلاف تھی تو بھی کیا اسے آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا؟اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 95 میں بحث نہیں صرف ووٹنگ کا ذکر ہے، عدم اعتماد کے معاملہ پر ووٹنگ ہونا تھی،آرٹیکل 95 اکثریت کی بات کرتا ہے، کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے،تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سے ہی ہونا ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس موقع فاروق نائیک کو اپنے دلائل کل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی ہے۔