کراچی (این این آئی)ایکسچینج کمپنیز ایسو سی ایشن آف پاکستان (ECAP) کے چیئرمین ملک محمد بوستان ، حاجی رمضان اور ناصر یوسف نے وزیر خزانہ شوکت ترین اور گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا کے ساتھ SBP کراچی میں ملاقات کی اور زوم پر صدر شیخ الائودین اور وائس چیئرمین شیخ مرید نے آن لائن میٹنگ میں حصہ لیا۔ ECAP کے چیئرمین ملک بوستان نے اس سے پہلے مورخہ
26 دسمبر 2021 کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایک لیٹر لکھا تھا جس میں انہیں بتایا کہ آپ نے ہمیں 2018 میں میٹنگ کے لیئے بلایا تھا اور آپ نے ہمیں کہا کہ اس وقت حکومت کو فارن ایکسچینج کی شدید کمی ہے آپ حکومت کو فارن ایکسچینج فراہم کریں۔ ہم نے آپ کے حکم پر لبیک کہا اور ایکسچینج کمپنیوں نے 2018 سے دسمبر 2021 تک کمرشل بینکوں کے ذریعے 13 ارب ڈالر حکومت پاکستان کو فراہم کیئے۔ گزشتہ سال ایکسچینج کمپنیوں نے 4.5 ارب ڈالر فراہم کیئے۔ ملک بوستان نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ جس طرح حکومت کمرشل بینکوں کو بیرون ممالک سے ورکر ریمیٹنس لانے پر فی ڈالر 6 روپے Rebate دیتی ہے اسی طرح اگر ایکسچینج کمپنیوں کو بھی Rebate دیا جائے تو ہم سالانہ 10 ارب ڈالر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لیٹرملنے کے بعد وزیر اعظم کے سیکرٹری نے چیئرمین ملک بوستان سے رابطہ کر کے بتایا کہ آپ کا لیٹر وزیراعظم کو مل گیا ہے انہوں نے وزیر خزانہ اور گورنراسٹیٹ بینک کو کہا ہے کہ آپ سے میٹنگ کر کے ایکسچینج کمپنیوں کے مسائل کو حل کیا جائے اور قابل تجاویز پر عمل کیا جائے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس سلسلے میں یہ میٹنگ طلب کی تھی۔ انہوں نے ایکسچینج کمپنیوں کے ملک میں اربوں ڈالر انٹر بینک میں سرینڈر کرنے پر تعریف کی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ حکومت جس طرح کمرشل بینکوں کو ملک میں ان ورڈ ریمیٹنس لانے پر Rebate دیتی ہے اسی ریشو سے ایکسچینج کمپنیوں کو بھی Rebate دیا جائیگا۔ شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت ملک کو فار ن ایکسچینج کی شدید ضرورت ہے۔ ایکسچینج
کمپنیاں زیادہ سے زیادہ فارن ایکسچینج حکومت کو فراہم کریں۔ ECAP چیئرمین نے وعدہ کیا اور انہیں بتایا کہ اگر حکومت ہمارے دیرینہ مسائل حل کر دے تو ہم انشااللہ سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ حکومت کوفراہم کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے گورنر SBP رضاباقر کو بتایا کہ اس وقت تقریبا 300 انٹرنیشنل منی ٹرانسفر کمپنیوں نیکمرشل بینکوں سے منی ٹرانسفر کے ایگریمنٹ کیئے ہوئے ہیں۔ SBP نے
ان میں سے صرف 5 انٹرنیشنل منی ٹرانسفر کمپنیوں کو ایکسچینج کمپنیوں کے ساتھ ایگریمنٹ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ SBP ہمیں 100 انٹرنیشنل منی ٹرانسفر کمپنیوں کے ساتھ ایگریمنٹ کرنے کی اجازت دیں۔ ملک بوستان نے گورنر SBP کو بتایا کہ اس وقت پبلک کے پاس گھروں اور لاکروں میں کڑوڑوں پرانے ڈالر جوکہ مورخہ2013سے پہلے جاری ہوئے ہیں پڑے ہوئے ہیں جو کہ کمرشل بینک نہ
تو پبلک سے اور نہ ہی ایکسچینج کمپنیوں سے خرید رہے ہیں نہ ہی ڈالر اکائونٹ میں ڈیازٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پبلک بہت پریشان ہے پاکستانی کمرشل بینک صرف 2013 کے بعد جاری ہونے والے گرین ڈالر Accept کر رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ امریکہ نے پرانے ڈالر لینے بند کر دیئے تو پبلک کے کڑوڑوں ڈالر ردی کے کاغذ بن جائیں گے۔ ابھی تو امریکہ کا سینٹرل بینک پرانے ڈالر کو
Accept کر رہا ہے اس وجہ سے ایکسچینج کمپنیاں SBP سے اجازت لیکر ایکسپورٹ کر رہی ہیں لیکن ایکسپورٹ پر وسیجر اتنا لمبا ہے کہ بیرون ممالک سے ڈالر ایکسپورٹ کر کے واپس اکائونٹ میں لانے میں کم از کم 20 دن درکار ہیں جس کی وجہ سے ایکسچینج کمپنیوں کا کیپیٹل بلاک ہو جاتا ہے۔ اگر SBP جس طرح دوسری 3rd فارن کرنسیاں روزانہ کی بنیاد پر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیتا
ہے اسی طرح پرانے ڈالر ایکسپورٹ کرنے کا اجازت دے تو پبلک کے یہ کڑوڑوں ڈالر تبدیل ہو کر بینک اکائونٹ میں ڈیپازٹ ہو سکتے ہیں یاپبلک چاہے تو یہ ڈالر فروخت کر کے پاکستانی روپے میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔ اس تجویز کو وزیر خزانہ اور گورنر نے مثبت قرار دیتے ہوئے SBP کو کہا ہے کہ آپ روزانہ کی بنیاد پر پرانے ڈالر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیں۔ ملک بوستان نے گورنر ایس
بی پی اور شوکت ترین کو بتایا کہ اس وقت حکومت اور SBP نے ڈالر کی خریداری ک روکنے کے لیے جو اقدامات کیئے ہیں وہ اتنے موثر ثابت نہیں ہو رہے۔ ماضی کے اقداما ت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو اس کے انٹر بینک اور فری مارکیٹ میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے بلیک مارکیٹ وجود میں آگئی ہے جو فری مارکیٹ کی نسبت 5 روپے مہنگا بغیر رسید
خریدوفروخت کر رہے ہیں۔ جو لوگ پہلے ڈالر میں سرمایہ کاری کرتے تھے وہ ایکسچینج کمپنیوں سے خرید کر اپنے ڈالر اکائونٹ میں ڈیپازٹ کراتے تھے جس سے انہیں 2 فائدے ہوتے تھے ایک تو انہیں سالانہ انٹرسٹ ملتا تھا دوسرا جتنا روپیہ ڈی ویلیو ہوتا تھا اتنا انہیں فائدہ ملتا تھا اس وجہ سے وہ گھروں کی بجائے ڈالر اپنے اکائونٹ میں رکھتے تھے جب سے حکومت نے ڈالرکے خریداروں سے
انکوائری شروع کی ہے اس کے بعد اب ایکسچینج کمپنیوں کی بجائے بلیک مارکیٹ سے بغیر رسید خریدرہے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ 3 ماہ میں ورکر ریمیٹنس بھی مسلسل کم ہو رہی ہیاور ایکسچینج کمپنیوں سے اب 50% لوگ خریدوفروخت کرنے نہیں آرہے۔ اس سلسلے میں ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ جو لوگ آفیشل چینل سے ڈالر خرید کر اپنے ڈالر اکائونٹ میں ڈالر رکھنا
چاہتے ہیں انہیں اس سے نہ روکا جائے۔ صرف ڈالر اکائونٹ سے ڈالر بیرون ممالک بھیجنے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ کم سے کم ڈالر بیرون ملک ٹرانسفر ہو۔ اگر آپ گزشتہ 2 سال کا ریکارڈ دیکھیں تو 175 ارب ڈالر پاکستانی کمرشل بینکوں سے غیر ملکی بینکوں میں ٹرانسفر ہوئے ہیں۔ گزشتہ 70 سال میں پاکستان نے 125 ارب ڈالر کے قرضے لیئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں فارن
ایکسچینج کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف منیجمنٹ کی کمی ہیجسے بہترین حکمت عملی سے Manage کیا جاسکتا ہے۔ SBP، حکومت اور ایکسچینج کمپنیوں نے گزشتہ 20 سال میں محنت کر کے آفیشل چینل کو پروموٹ کیا۔ ہماری یہ ساری محنت خاک میں مل جائیگی۔ ہنڈی حوالہ اور بلیک مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کے لیئے جو ایکسچینج کمپنیاں فری مارکیٹ سے فارن کرنسی خرید کر
ایکسپورٹ کرتی ہیں اس کے عوض جو ڈالر ان کے اکائونٹ میں واپس پاکستان آتے اگر کوئی کمپنی انٹر بینک میں سرینڈر کرے تو اسیبھی Rebate دیا جائے تاکہ ایکسچینج کمپنیاں کسٹمر کو بلیک مارکیٹ کے برابر ریٹ دے کر زیادہ سے زیادہ فارن کرنسی خرید کر ایکسپورٹ کر سکیں۔ ہم آپ کے Helping Handsہیں۔ آپ جو بھی حکم کرینگے ہم اس پر خلوص دل کے ساتھ عمل کرینگے۔ آپ ہم پر
بھروسہ کریں۔ ہمیں بلیک اور حوالہ مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کے لیئے جو ہمارے جائز مسائل حل کریں۔افغانستان کو ایکسپورٹ کرنے والے ایکسپورٹر کو حکومت نے بینک کائونٹر پر کیش ڈالر جمع کرانے کی اجازت دی ہوئی ہے اسے فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ اس سہولت کا بہت زیادہ مس یوز ہو رہا ہے۔ افغانستان کے اکائونٹہ فریز ہونے کی وجہ سے ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے وہ ڈالر
کہاں سے دینگے۔ افغانی امپورٹر نے پاکستان سے اگر کوئی چیز امپورٹ کرنی ہوتی ہے تو وہ پاکستانی ایکسپورٹر کو کہتا ہے کہ پاکستان کی بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنی کمپنی کے ڈالر اکائونٹ میں کیش ڈالر جمع کرادیاو ر پاکستانی ایکسپورٹر افغانی امپورٹر کے Behalfپر بلیک مارکیٹ سے 5 روپے مہنگا ڈالر خرید کر بینک میں جمع کرادیتا ہے اور اپنا مال ایکسپورٹ کر دیتا ہے۔ افغانی امپورٹر وہ مال وصول ہونے کے بعد
دبئی کی حوالہ مارکیٹ سے ڈالر خرید کر پاکستانی ایکسپورٹر کو دبئی میں دے دیتا ہے اس وجہ سے ہنڈی حوالہ کا ریٹ دبئی میں انٹر بینک سے 10 روپے مہنگا ہے جس کی وجہ سے ورکر ریمیٹنس بھی کم ہو رہی ہے اگر اس پالیسی کو جلد ختم نہ کیا گیا تو ڈالر کا ریٹ کم نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرے یا پھر پاکستانی ایکسپورٹر کو یہ اجازت دی جائے کہ
وہ پاکستانی روپے میں بھی ایکسپورٹ کر سکتا ہے کیونکہ افغانیوں کے پاس اربوں پاکستانی روپیہ پڑا ہوا ہے۔ ایکسپورٹر کو صرف بینکنگ چینل سے بیرون ممالک سے ان ورڈ ریمیٹنس کے ذریعے فار ن ایکسچینج منگوانے کی اجازت ہو۔اسی طرح کمرشل بینکوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اتنے ڈالر امپورٹر کو فروخت کرین جتنے ڈالر بینکوں نے ایکسپورٹر سے فارورڈ خریدے ہوئے۔ خریدے
بغیر قطعا کوئی ڈالر فروخت نہ کریں اگر خریدے بغیر بینک ڈالر فروخت کرینگے تو اس سے ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے ڈالر کا ریٹ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ چند ماہ پہلے بینکوں نے بہت زیادہ ڈالر فارورڈ میں امپورٹر کو فروخت کر دیا جب ان کے امپورٹر کا مال پہنچ گیا تو بینکوں نے SBP اور حکومت کو کہا کہ ہمارے پاس اب ڈالر موجود نہیں ہیں۔ آپ ہمیں ڈالر فراہم کریں ورنہ ڈالر کا ریٹ بہت زیادہ بڑھ جائیگا
جس کی وجہ سے SBP نے تقریبا 2.5 ارب ڈالر بینکوں کو فراہم کیئے لیکن اس کے باوجود ڈالر کا ریٹ کم نہیں ہوا۔ جیسا کہ چند دن پہلے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی میڈیا پر بتایا کہ کچھ کمرشل بینک سٹہ کر کے ڈالر کا ریٹ جان بوجھ کر بڑھا رہے ہیں۔ ان کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے۔ ملک بوستان نے تجویز دی کہ اگر حکومت آج ہی کمرشل بینکوں پر یہ پابندی عائد کر دے کہ وہ خریدے بغیر امپورٹر کو فارورد میں ڈالر ہر گز فروخت نہ کریں تو کل سے ہی ڈالر گرنا شروع ہو جائیگا۔ بہت جلد ڈالر کم از کم 5 روپے تک گرسکتا ہے۔ جو ہم آپ کو تجاویز پیش کر رہے ہیں ان پر غور کریں۔ اگر پاکستان کے مفاد میں ہے تو اس پر عمل کریں۔