لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر اعظم نواز شریف کا مشروط طور پر مزاحمتی بیانیہ چھوڑ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا اعلان۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں نہ ہم لڑنا چاہتے ہیں۔ قانون اور آئین کی حکمرانی ہمیں مفاہمت سے ملے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
آئین کی حکمرانی ہوتی ہے تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آج ہماری بے توقیری اس لیے بھی ہے کہ ہم بار بار آئین توڑتے ہیں۔ عدالتیں آئین توڑنے والوں کو قانونی قرار دیتی ہیں۔ ہم اس لیے بھی بے توقیر ہیں کہ ہم بار بار وزیراعطم ہاؤس کو فتح کرتے ہیں اور وزیراعظم کو گرفتار کرتے ہیں۔ پارلیمان توڑتے ہیں، قانون توڑتے ہیں عدالتیں توڑتے ہیں ، الیکشن چوری کرتے ہیں۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نے دن رات محنت کرکے پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔ سنہ 2014 میں معیشت کا بُرا حال تھا لیکن یہ اسے دوبارہ ٹریک پر لے کر آئے اور 5.8 فیصد گروتھ ریٹ تک لے گئے۔ اگر اس خاکسار کو اقامے کی بنیاد پہ نہ نکالا جاتا تو اگلے سال ہم سات فیصد پر آجاتے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اندر اس وقت پاکستان کیلئے کرسی بھی نہیں رکھی جاتی اور ہمارے پاس اتنے ووٹ بھی نہیں ہیں کہ ہم قرار داد ہی جمع کروا سکیں. قومی وقار کا
یہ حال ہے کہ ایک لیڈر فون نہیں کرتا اور ایک لیڈر فون سنتا نہیں۔انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ’کہتا تھا ملک کے قرضے بڑھیں تو وزیراعظم چور ہے، آٹے کی قیمت بڑھے تو وزیراعظم چور ہے، چینی کی قیمت بڑھے تو وزیراعظم چور ہے، سُن سکتے ہو تو سنو آج 22 کروڑ عوام تمہیں چور اور ڈاکو کے خطاب سے پکار رہے ہیں، عوام نے تمہیں سب سے بڑا چور اور ڈاکو قرار دے دیا ہے۔‘