نیو یارک(نیوز ڈیسک)گیارہ ستمبر 2001 کا دن امریکی تاریخ کا خوفناک اور دفاعی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس دن دہشت گردوں نے امریکی ایئر پورٹس سے 5 طیارے اغوا کیے اور امریکی عظمت کا نشان نظر آنے والی سب سے بلند امریکی عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ٹوئن ٹاور سے ٹکرا دیئے۔ واقعہ کے بعد امریکی صدر سمیت اعلیٰ قیادت کا فوری ردعمل کیسا تھا اس کی یاد گار تصاویر پہلی بار منظر عام پر آگئیں ہیں جس میں خوف اور غصہ پوری قیادت کے چہروں سے عیاں ہے۔نائن الیون واقعہ کے فوری بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں ان کے چہرے پر غصے اور انتقام کے آثار واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی کی تصاویر میں ایک جگہ وہ بے بسی کے عالم میں ٹانگیں میز پر رکھے تباہی کے مناظر دیکھ رہے ہیں جب کہ ایک تصویر میں سخت غصے کی حالت میں چشمہ میز پر رکھے ہوا میں گھورتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ ابھی آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑیں گے۔ایک اور تصویر میں وہ کچھ سوچتے ہوئے اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور دوسری جگہ اس وقت کی سیکورٹی ایڈوائزر کونڈو لیزا رائس کے ساتھ بیٹھے چیخ کر اپنے غصے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ایک اور تصویر میں صدر جارج ڈبلیو بش، کونڈولیز رائس، ڈک چینی اور دیگر اعلیٰ قیادت غم اور افسوس کی حالت میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غوروخوض کر رہے ہیں۔واقعہ کے بعد سب سے زیادہ غم اور حیرت اس وقت کی سیکورٹی ایڈوائزر کونڈو لیزا رائس کے چہرے پر نظر آرہا ہے اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاول کے ساتھ وہ انتہائی افسوس کے عالم میں اور دکھ بھرے انداز میں گم سم بیٹھی ہیں لیکن ایک دوسری تصویر میں تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کرسکیں اور روپڑیں اور اپنے ہونٹوں کو چبانے پر مجبور ہوگئیں۔ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ نائن الیون کے واقعے نے اعلیٰ امریکی قیادت کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو منجمد کردیا تھا اور اس کے بعد کے فیصلے سخت اور انتقامی کارروائی کا نتیجہ تھے جس میں گوانتاناموبے کی جیل میں قیدیوں پرانسانیت سوز تشدد بھی شامل ہے جس پر پوری دنیا نے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔