بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

اپوزیشن نیب قانون کی 34 شقوں میں کیا تبدیلیاں کروانا چاہتی تھی؟ کن رہنماؤں کو بچانا چاہ رہی تھی؟ حکومت نے سارا کچا چٹھا کھول دیا

datetime 21  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن کی نیب قانون کی 38 شقوں میں سے 34 میں ترامیم عوام کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کو بطور جرم ختم کرنے کی ترمیم بھی شامل تھی، فیٹف پر اپوزیشن کے مذاکرات اپنی ذات کیلئے تھے، اپوزیشن کی ترامیم مان لیتے تو سارے چوراور ڈاکو جیلوں سے آزاد ہوتے،اپوزیشن

کو جتنے جلسے اور جلوس کر نے ہیں کرے، ہم نہیں روکیں گے،نوازشریف دھوکہ دیکر باہر گئے ہیں، لندن میں جاتے ہی انقلابی بن گئے،نوسربازوں بارے کو عوام کے سامنے بے نقاب کر تے رہیں گے،کرونا ایس اوپیز پر عملدر آمد نہ کر نے پر ایف آئی آرز ہوگئی ہیں، اس کا اپنے وقت پر ایکشن ہوگا؟۔پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہاکہ پاکستانی عوام سے میڈیا کی وساطت سے مخاطب ہوں،اکثر جلسوں اور ٹاک شوز میں کہا جاتا ہے کہ عمران خان ہمیں این آر او کیسے دے سکتا ہے؟عوام کو این آر او کے پس منظر کا علم ہونا چاہیے،اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم نے تو این آر او مانگا ہی نہیں،عوام کو معلوم ہوجائے گا کہ این آر او کس نے مانگا تھا اور کس نے نہیں دیا؟۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ فیٹف بل پر مذاکرات کے لیے کمیٹی کی صدارت شاہ محمود قریشی کر رہے تھے جبکہ میں اس کمیٹی کا رکن تھا،انہوں نے کہا کہ جب اجلاس شروع ہوا تو پہلا سوال ہوا کہ نیب کا بل کہاں ہے، شاہ محمود قریشی نے کہا نیب بل پر بعد میں مذاکرات کرلیں گے جس پر ان کا جواب تھا نہیں، اس کے بعد اپوزیشن کمیٹی کی اجلاس سے باہر چلی گئی اور آدھے گھنٹے بعد آئی۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کے فیٹف بل پر مذاکرات اپنی ذات کیلئے تھے،اپوزیشن نے فیٹف بل پر مذاکرات کے دوران نیب بل کے حوالے سے ترامیم پیش کیں۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ نیب کے قانو ن میں 38شقیں ہیں

اور 34شقوں میں اپوزیشن نے ترامیم کہا اس حوالے سے کچھ ترامیم کا بتا دیتا ہوں اور عوام پر چھوڑتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں، یہ این آر ا ومانگ رہے تھے یا نہیں مانگ رہے تھے۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ اپوزیشن چاہتی تھی کہ نیب کے قانون کی عملداری 1999ء سے کی جائے اس بینشفری چوہدری شوگر ملزم اور 1999تک بنائے گئے اثاثے لیگل ہو جاتے، ساری کرپشن حلال میں

تبدیل ہو جاتی۔ وزیر اطلاعا ت نے دوسری ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن کہتی تھی کہ ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن نیب کے دائر کار میں نہیں ہوگی اس کے بینشفری شوگرملز، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف اور جاوید لطیف ہوتے اور ان کو چھوٹ مل جاتی، تیسری ترمیم میں کہاگیاکہ منی لانڈرنگ کو جرم کی تعزیر سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اس کے بینفشری

شہباز شریف ٹی ٹی کیس، آصف علی زر داری فیک اکاؤنٹس کیسز، شوگر ملز، خواجہ آصف، فریال تالپور کے اثاثے سے زائد کیسز تھے۔ وزیر اطلاعات نے چوتھی ترمیم کے حوالے سے بتایاکہ اپوزیشن چاہتی تھی کہ اہلیہ اور بچوں کو باہر نکالا جائے اس کا بینشفری آصف علی زر داری، انور مجید تھے، شہباز شریف کے سارے بچے بچ جاتے، مولانا فضل الرحمن کی کافی بے نامی

جائیدادیں ہیں اور مریم نواز کی بے نامی جائیدادیں ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ اپوزیشن نے بینکوں کے قرض جان بوجھ کر ادا نہ کرنے کی شق بھی ہٹانے کا کہہ رہی تھی،اس میں سندھ بینک کے زر داری کمپنی اور شوگر مافیاجو سلمان شہباز کے زیر سایہ کام کررہی تھی،اپوزیشن کی چھٹی ترمیم تھی کہ پانچ سال سے پہلے ہونے والی کرپشن کی تحقیقات نیب نہیں کریگا،اگر پانچ سے پہلے

کسی نے جرم کیا تھا وہ قانون کی گرفت سے باہر ہوگا، اس میں پیپلز پارٹی کو این آراو پلس مل جاتا اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کو این آ ار و پلس مل جاتا، شوگر سبسڈی پر بھی تحقیقات ہوسکے گی۔ وزیر اطلاعات نے اپوزیشن کی ساتویں شق کے حوالے سے بتایاکہ اس میں شہباز شریف کے اثاثے، احسن اقبال، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، خورشید شاہ، جاوید لطیف، محمد نواز

شریف، مریم نواز وغیرہ مستفید ہوتے۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ آٹھویں ترمیم میں کہاگیاکہ کوئی نا اہلی نہیں ہوگی جب تک سپریم کورٹ سے آر ڈرز نہ آجائے،یعنی آپ مقدمے کو چلاتے رہے اور وہ فیصلہ نہ ہو۔نویں شق کے حوالے سے اپوزیشن کے مطالبے کا بتاتے ہوئے وزیر اطلاعات کہاکہ جب عدالت سے ایک شخص نا اہل ہو جاتا ہے تو دس سال تک سیاست میں اجازت نہیں ہوگی

کہا گیا کہ اس کی مدت پانچ سال کر دی جائے،دسویں شق میں مطالبہ کیاگیاکہ کوئی انٹر نیشنل کو آپریشن نہیں ہونی چاہیے،اگر آپ نے چوری کے پیسے باہر بھجوا دیئے تو حکومت پاکستان یا نیب یا کسی بھی ادارے کا عمل دخل نہ ہو اور چوری بچ جائے۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ یہ جمہوریت کے داعی ہیں اور واویلا مچایا ہوا ہے، کرپٹ ٹولہ شہر شہر پھر رہا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے

کی کوشش کررہا ہے، اپنی کرپشن بچانے کیلئے عوام کی صحت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کبھی مہنگائی کے پیچھے سیاست کرتے ہیں، یہ غیر جمہوری طریقے سے جمہوری حکومت کو ہٹانے کیلئے باتیں کرتے ہیں اور ان کو پوری کوشش ہے،ان کو یہ بھی معلوم ہے جب تک وزیر اعظم عمران خان موجود ہیں ان کے چوری کے اثاثے کوتحفظ نہیں دے سکتے، انہوں نے

بڑی کوشش کی اور زور لگایا جوناکام ہوئے اور ناکام ہونگے، کبھی جلسوں کی دھمکیاں دیں وہ بھی کر لئے، ابھی ریلی کر نا چاہتے ہیں تو کریں اور عوام کی صحت کا خیال رکھیں، کرونا بڑھ گیا ہے، ہسپتال پر بوجھ بڑھ رہا ہے، یہ سب زمہ داری گیارہ جماعتوں پر ہے، عدالتوں نے غیر قانرنی قرار دیا لیکن یہ اپنے اثاثے اور سیاسی مستقبل کو بچانے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، یہ

قانون کی پرواہ ہے اور نہ ہی عوام کی جانوں کی پرواہ ہے، ان کا ہر میلہ فیل ہوا ہے اور لاڑکانہ میں بھی ان کو ندامت ہوگی اور کافی ہزیمت اٹھانا پڑیگی لیکن یہ باز نہیں آئیں گے کیونکہ ان کا مقصد بنیادی طورپر اپنی کرپشن کو بچانا ہے یہ نا اہل او کرپٹ لوگ ہیں انہوں نے ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگایا آج عوام کے ہمدرد بن کر آرہے ہیں اور پریس کانفرنسیں کرتے ہیں جس میں

سراسر جھوٹ بولا جاتا ہے ان سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں ہے اور یہ اپنے جھوٹ کوبار بار دوہراتے ہیں تاکہ لوگ سچ ماننے لگے لیکن حقیقت واضح ہے اور ہم عوام کو بتاتے رہیں گے کہ جب یہ اقتدا رمیں تھے تو ان کی جمہوریت کیسی تھی؟ادارے پاکستانی سرحدوں کے محافظ ہیں ان میں تقسیم پیدا کر نے کی کوشش کی اور انہی اداروں سے جمہوری حکومت کو ہٹانے کیلئے

لگے ہوئے ہیں ایک طرف کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو اور دوسری طرف رویہ غیر جمہوری ہے،یہ دو سال تک سوئے رہے ہیں، آپ کو امید تھی کہ این آر ا و مل جائیگا اور جب این آر او نہیں ملا تو جلسے جلوس شروع کر دیئے ہیں، ہم سے زیادہ جلسے، جلوس اور لانگ مارچ بارے کوئی نہیں جانتا، ان راستوں پر ہو کر آئے ہیں ہمیں پتہ ہے ان کو کچھ حاصل نہیں ہونا، ہمارا ایمان اور

حوصلہ زیادہ مضبوط ہوا ہے، قوم کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ لوگ ہر قیمت پر دوبارہ اقتدارز میں آنا چاہتے ہیں یہ اداروں کو مانتے ہی نہیں، مولانا فضل الرحمن نے ایک انٹرویو میں کہاکہ میں خود اپنے آپ کو صادق و امین ڈکلیئر کر تا ہوں، آپ عمران خان کی طرح عدالت کیوں نہیں جاتے؟،ایک مذہبی رہنما سیاست کررہے ہیں اور سیاست کے لبادے میں کاروبار کر تے ہیں، ایسے لوگ

عوام کو گمراہ کر نے کیلئے روز آئے ہوتے ہیں، عدالتی فیصلہ وہ مانتے ہیں جو ان کے حق میں آئے، یہ قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں، یہ وہ پاکستان لانا چاہتے ہیں جو پہلے تھا جس میں غریب کیلئے الگ اور اشرافیہ کیلئے الگ قانون تھا، انہوں نے کبھی اداروں کو عزت دی ہی نہیں اور اسی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے، ادارے غیر فعال ہوئے، ان کی دوبارہ کوشش ہے جو کام رہ گیا تھا وہ

دوبارہ پورا کریں لیکن انشاء اللہ ایسا ہونے والا نہیں۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ جو این آراو انہوں نے مانگا وہ ہم دے سکتے تھے،اگر ان ترامیم کو کسی مجبوری کے تحت مان لیتے تو یہ سارے جیلوں سے آزاد ہوتے ہیں، اسی این آ راو کا بار بار ذکر ہوتا ہے ہم نے نہیں دیا اور نہ ہی ہم دینگے، اپوزیشن والے شہر شہر جلسے کررہے ہیں ان کو ہزیمت اٹھانا پڑی، اگر یہ کوئی چیزمانگتے جس

میں ملک کی بہتری ہوتی مگر ایسا نہیں،ان کی ساری ترامیم کر دیتے تو یہ ڈاکوؤں اور چورں کیلئے فائدہ ہوتی، آپ نے اپنی ترامیم میں نیب کے پر بھی کاٹ دیئے اور دانت بھی نکالئے،ہم کسی طرح اس پر کمزور نہیں کرینگے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ایک جمہوری حکومت قانون اور آئین کے تحت کام کررہی ہے، کرونا کے باوجود ہماری معیشت بہتر ہے، کرونا نے پوری دنیا میں تباہی

مچا دی، لندن ایک ماہ کیلئے بند ہے جس کے باعث سارا کاروبار بند ہوگیا؟، کرونا کے دور ان ہم نے ریکارڈ ایکسپورٹ کی ہیں،کرونا انٹر نیشنل اکانومی کومنفی میں لے آیا، ایسی صورتحال میں کئی لوگ بے روز گار ہوئے ہیں، ائیر لائنز سمیت کئی انڈسٹریز سے نوکروں سے فارغ کیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ، ہمیں اپویزشن کہتی ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینگے، ہم نے کہاں

کہا تھا دو سال میں پچاس گھر لاکھ بنا کر دینگے، وزیر اعظم ہر ہفتے میٹنگ کر تے ہیں اور دو شہر بنانے پر کام کررہے ہیں، غریب ترین لوگوں کو گھر دینے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے پیچھے محنت اور حکمت عملی موجود ہے، لاہور کی مثال آپ کے سامنے ہے، لانگ مارچ کیلئے بھی آنے دے رہے ہیں، استعفیٰ کل دینے ہیں تو آج دیں، ہم ہر چیز ان کی مانگ رہے ہیں، نہ کوئی

رکاوٹ ڈالی ہے اور نہ ہی ڈالیں گے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ کرونا ایس اوپیز پر عملدر آمد نہ کر نے پر ایف آئی آرز ہوگئی ہیں، اس کا اپنے وقت پر ایکشن ہوگا؟۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے یہ جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے،ہم ان کو راغب کررہے ہیں آپ آئیں اور بیٹھیں۔ انہوں

نے کہاکہ یہ ڈاکٹر بھی انڈین رکھتے ہیں، یہ سوال مریم نواز سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کے والد علاج کیلئے گئے تھے تو ورہاں پر انقلابی بن گئے اور جمہوریت کی صفات بیان کررہے ہیں، یہ نوسر باز ہیں،یہ دھوکہ دینے والے لوگ ہیں،تین بار رہنے والے وزیر اعظم کا یہ طریقہ ہو تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…