اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ کا پِتہ درست کام نہ کررہا ہو تو پتھری کے ساتھ ساتھ معدے میں تیزابیت، گیس، متلی، قے اور معدے میں درد جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پِتہ کیا ہے؟ پِتہ آپ کے پیٹ میں جگر کے بالکل نیچے دائیں جانب ہوتا ہے اور امرود کی شکل کے اس
عضو میں ایک سیال (کیمیکل) بائل یا صفرا ہوتا ہے۔ یہ سیال جگر میں بنتا ہے جو کہ چربی اور مخصوص وٹامنز کو ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔ جب آپ کھاتے ہیں تو جسم اسے خارج کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ تاہم اگر وہ صحیح طرح کام نہ کرسکے تو پتھری کے ساتھ ساتھ معدے میں تیزابیت، گیس، متلی، قے اور معدے میں درد جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاہم کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جو پتے کو اپنے افعال درست طریقے سے سرانجام دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، جبکہ دیگر اس کے لیے کام کرنا مشکل بناتی ہیں۔ غذا میں شامل یہ مصالحہ پتے میں پتھری کا خطرہ بڑھائے دالیں گوشت کم کھا کر زیادہ توجہ دالوں، بیج وغیرہ پر دینا پتے کے افعال کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے، کیونکہ چربی والا سرخ گوشت پتے میں ورم کا باعث بن سکتا ہے (اگر بہت زیادہ کھایا جائے)۔ چربی والی غذائیں جیسے تلے ہوئے پکوان، پنیر، آئسکریم اور گوشت کا معتدل استعمال کرنا بھی پتے کی صحت کے لیے بہتر ہے۔ مالٹے مالٹے بھی جسم کے لیے بہترین
پھلوں میں سے ایک ہے، وٹامن سی سے بھرپور ترش پھل بھی صحت مند پتے کے لیے اچھا انتخاب ہے، طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق وٹامن سی پتے کی پتھری سے تحفظ دینے میں کردار ادا کرتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق روزانہ کچھ اضافی وٹامن سی کو جسم کا حصہ بنانا پتے
میں پتھری کا خطرہ 50 فیصد تک کم کردیتا ہے اور مالٹے جیسے مزیدار پھل کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پتے میں پتھری کی علامات اور وجوہات بھنڈی بھنڈی ایک ایسی بہترین سبزی ہے جس کے فوائد کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو، جیسا کہ یہ صحت مند
چربی کو ہضم ہونے میں مدد دیتی ہے۔ جب پِتہ مناسب مقدار میں صفر بنا نہیں پاتا یا اس کا اخراج بلاک ہوجائے تو بھنڈی کو کھانا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اچار والی ادرک، کریلوں اور ایسے ہی کچھ تلخ ذائقے والی سبزیاں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ معدے میں موجود سیال
کو حرکت میں لاکر صحت مند صفرا کی پیداوار میں بہتری لاتی ہیں۔ سبز پتوں والی سبزیاں پالک، ساگ یا دیگر سبز پتوں والی سبزیاں میگنیشم سے بھرپور ہوتی ہیں، جو پِتے کے لیے فائدہ مند جز ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو مگر پتے میں پتھری عام طور پر کیلشیئم سے بنتی ہیں اور
میگنیشم، کیلشیئم کو جمع ہونے سے روکنے میں مدد دینے والا جز ہے اور اس طرح پتے میں پتھری کے خطرے سے بچا جاسکتا ہے۔ پانی ویسے پانی کو غذا تو نہیں قرار دیا جاسکتا مگر یہ جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچانے سمیت صحت کے لیے کئی فوائد کا حامل ثابت ہوتا ہے، اور زیادہ پانی
پینے کا ایک فائدہ پتے کے افعال کو بہتر بنانا بھی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پانی کی ضرورت تو جسم کے ہر حصے کو ہوتی ہے جن میں پتہ بھی شامل ہے اور اس سے بھی پتھری کے خطرے کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ چقندر چقندر کھانے کے کچھ فوائد میں یہ فائدہ بھی شامل ہے
کہ اس میں بیٹائن نامی جز موجود ہوتا ہے جو جگر کو تحفظ فراہم کرکے صفرا کے بہاﺅ کو حرکت میں لاکر چربی گھلانے میں مدد دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اسے پتے کی صحت کے لیے اچھا انتخاب قرار دیتے ہیں، جسے جوس کی شکل میں نوش کریں یا سلاد میں کھائیں، فائدہ ہر صورت
میں ہوتا ہے۔ السی کے بیج فائبر نظام ہاضمہ کو صحت مند بناتا ہے۔ جس سے زہریلا مواد اور صفرا کی پرانی مقدار کو جسم خارج کرنے میں مدد ملتی ہے، اگر فائبر کی مقدار مناسب نہ ہو تو یہ مواد اور بائل جمع ہونے لگتا ہے، جس سے صفرا کا بہاﺅ متاثر ہوتا ہے ، خواتین کو روزانہ 25 گرام جبکہ مردوں کو 38 گرام فائبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ السی کے بیج اس کے
حصول کے لیے بہترین ہے جسے پانی میں ڈال کر پی لیں یا کسی چیز میں ڈال کر کھالیں۔ بیج بیجوں کے متعدد طبی فوائد ہیں اور پتے کے لیے بھی یہ بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ فیٹ والی غذا سے بائل بھی زیادہ خارج ہوتا ہے مگر جب غذا یں چربی بہت زیادہ ہو تو وہ بائل میں جمع ہوکر پتے
کی پتھری کا باعث بن سکتی ہے، تو گوشت کا استعمال کم کرکے نباتاتی غذا پر زیادہ توجہ مرکوز کریں تاکہ کولیسٹرول لیول بہتر ہوسکے اور پتے کی پتھری کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوسکے۔ بند گوبھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم ہو کہ معدے میں موجود بیکٹریا کا توازن برقرار رکھنا صحت کے لیے
کتنا ضروری ہے اور اگر معدے میں نقصان دہ بیکٹریا کی مقدار بڑھ جائے تو ایسی متعدد علامات سامنے آتی ہیں جن میں سے بیشتر پتے کو متاثر کرتی ہیں، اس معاملے میں بندگوبھی آپ کی مدد کرتی ہے جو کہ بیکٹریا کے توازن کو بحال کرکے پتے کی صحت بھی بہتر کرسکتی ہے، اگرچہ دہی میں پروبائیوٹیکس کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے مگر وہ پتے کے لیے دوست نہیں ہوتا۔ یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے تاہم قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔