اسلام آباد(آن لائن) )گلگت بلتستان کے انتخابات میں خواتین امیدواروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جوکہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔327ٹوٹل امیدواروں میں خواتین کی تعداد صرف4ہے۔اس حوالے سے گلوبل آبزورز الیکشن نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق 15نومبر کو ہونے والے انتخابات میں خواتین کے لئے بہت کم مواقع نظر آرہے ہیں جیسا کہ خواتین امیدواروں کی تعداد سے
ظاہر ہے۔مرکز میں برسراقتدار پارٹی پی ٹی آئی نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔اس کے 24امیدواروں میں سے صرف ایک خاتون ہے۔دوسری طرف جی بی کے الیکشن ایکٹ پر ایک نظر ڈالیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ کسی حلقے میں خواتین کا ووٹ 10فیصد سے کم ہوا تو اس حلقے کا انتخابی عمل کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ظاہر ہے یہ شق اس لیے رکھی گئی تاکہ خواتین کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنائے جائے مگر افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی جماعتوں نے الیکشن آرڈر کو اس کی روح کے مطابق نہیں سمجھا اور اسی کانتیجہ ہے کہ خواتین امیدواروں کی تعداد اتنی کم ہے۔خواتین کے حوالے سے ایک اور قابل غور امر یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ2017ئ� کی شق206کے مطابق سیاسی پارٹیاں پابند ہیں کہ 5فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے جائیں۔اس کے مطابق20ٹکٹ میں سے ایک ٹکٹ خواتین کے لئے نکلتا ہے۔اس حساب سے دیکھیں تو الیکشن ایکٹ میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ ٹوٹل امیدوار24ہوں گے توہر پارٹی ایک خاتون کو ٹکٹ دے کر یہ پابندی پوری کردیتی ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ 33کے ایوان میں خواتین کے لئے 6مخصوص سیٹیں بھی رکھی گئی ہیں لہذا سیاسی پارٹیاں اس لئے بھی خواتین کو جنرل سیٹ پر ٹکٹ نہیں دیتی کیونکہ 6خواتین مخصوص سیٹوں پر آجاتی ہیں۔جنرل سیٹوں پر الیکشن لڑنے والی خواتین میں جے یو آئی کی مہناز ولی،جی بی اے 6 حمزہ،پیپلز پارٹی کی سعدیہ دانش،جی بی اے18دیامیر چار،آمنہ بی بی انصاری پی ٹی آئی سے جی بی اے 23گانچھے 2 شامل ہیں جبکہ شہناز بھٹو جی بی اے20غذر 2 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہی ہیں۔