سرینگر (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی مساجد میں نماز عید کی ادائیگی پر پابندی لگا دی۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مذہبی رسومات کی ادئیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت نے مساجد میں نماز عید کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی۔ بھارتی حکومت کا مقبوضہ کشمیر میں
عید پر تمام مساجد اور دربار بند رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ عید پر تمام مساجد کے علاوہ دربار بھی بند رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں عید کے موقع پر پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند رہے گی۔دوسری جانب ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے ٹرسٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ماہ 5 اگست کو ایودھیا مندر کا سنگِ بنیاد رکھیں گے۔تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق منتظمین نے بتایا کہ سنگِ بنیاد کی تقریب 5 اگست کو رکھی گئی ہے جو علم نجوم کے لحاظ سے ہندوؤں کے لیے بہت اچھا دن ہے تاہم اسی روز بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے یکطرفہ فیصلے کو بھی ایک برس مکمل ہوجائے گا۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے الحاق شدہ ہندو قوم پرست جماعت وشوا ہندو پریشد یا ورلڈ ہندو آرگنائزیشن کے مطابق چونکہ بھارت میں کورونا وائرس تاحال تیزی سے پھیل رہا ہے اور کیسز کے لحاظ سے عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہے لہذا تقریب براہِ راست سرکاری نشریاتی ادارے پر نشر کی جائے گی اور شرکا کی
تعداد کو محدود رکھا جائے گا۔وشوا ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل نے اس حوالے سے 2 روز قبل جاری کردہ اعلامیے میں کہا کہ یہ مندر معاشرتی ہم آہنگی، قومی یکجہتی، ہندوتوا کا احساس کو یکجا کرنے اور اسے بیدار کرنے کے ایک پائیدار اور لازوال مرکز کے طور پر کام کرے گا۔نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے علاقے احمد آباد کے آرکیٹیکٹ نے 161 فٹ(49 میٹر) بلند ڈھانچہ تیار کرنے کی
پیشکش کی ہے۔رپورٹ کے مطابق کے مطابق اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتیا ناتھ نے درخواست کی کہ نریندر مودی کے دورے سے قبل آیودھیا میں صفائی ستھرائی کی ایک تقریب منعقد کی جائے اور شہر کے تمام مندروں میں تیل کے دیے جلائیں جائیں۔خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بھارت کی سپریم کورٹ نے دہائیوں بعد میں فیصلہ سنایا تھا کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کیلئے
ایک ٹرسٹ بنایا جائے جو انتظامات کو دیکھے گا اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو کہا تھا۔سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کیلئے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے۔ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے
بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کے مالک رام جنم بھومی نیاس ہیں، ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ مندر کی تعمیر کیلئے 3 ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دی جائے۔فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کیا تھا اہم ترین اور 27 سال سے جاری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اثارِ قدیمہ کے
جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے12 دسمبر کو
مسترد کردیا تھا۔یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا،جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔
بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے معاملے پر اْسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھااس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔