لاہور( این این آئی)کاروباری برادری نے وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ماہراقتصادیات نے بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے پرانی چیزیں نئے برتن میں ڈال کر پیش کر دی ہیں ،آنے والے وقت میں بتاچلے گا کہ کرونا معیشت کو مزید کتنا نقصان پہنچتا ہے،تقریر سے تو ریلیف ملتا نظر آرہا ہے تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی اندازہ لگایا جاسکے گا،
حکو مت نے نان ٹیکس آمدنی بڑھانے کا کہا ہے اس کا مطلب ہے کہ دیگر اشیا ء کے ساتھ ساتھ پٹرولیم لیوی بڑھے گی ،نئے ٹیکس عائد نہ کرنے اور پہلے سے عائد ٹیکسوں میں کمی کا فیصلہ خوش آئند ہے،حالات بہتر ہونے پر منی بجٹ بھی آئے گا۔سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بجٹ پر اپنے رد عمل میں کہا کہ بجٹ حقائق پر مبنی نہیں بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا ۔پنجاب کی سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بجٹ کے حقائق پر مبنی ہونے پر شک ہے ،اگر بجٹ کے اہداف پورے نہ ہوئے تو عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پی ٹی آئی کے منشور کے برعکس ہے ہے ،بجٹ تجا ویز مایوس کن ہیں اور اس سے ترقی کے نئے راستے نہیںکھل سکتے ،ایف بی آر کے لئے جو ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے اس میں سے صوبوں کو ادائیگی کے بعد وفاق دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پوری نہیں کر سکتا ،حکو مت نے نان ٹیکس آمدنی بڑھانے کا کہا ہے اس کا مطلب ہے کہ دیگر اشیا ء کے ساتھ ساتھ پٹرولیم لیوی بڑھے گی ۔مطالبہ ہے کہ حکومت منظوری سے پہلے بجٹ پر نظر ثانی کرے اور ایسا بجٹ بنایا جائے جو کورونا سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹے کی صلاحیت رکھتا ہو۔آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی صدر اشرف بھٹی نے وفاقی بجٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں
تاجر تنظیموں اور ایسوسی ایشنز کی تجاویز کو اہمیت نہیں دی ، شناختی کارڈ اور ود ہولڈنگ ٹیکس کو ختم نہیں کیا گیا ، موجودہ حالات میں تاجر طبقہ ریلیف کی امید کررہا تھا لیکن اسے مایوسی ہوئی ہے۔ اشرف بھٹی نے کہا کہ ٹیکسوں کی مد میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ، آڈٹ کے حوالے سے بھی مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے۔ تاجروں کا مطالبہ ہے کہ شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جائے لیکن حکومت نے اسے پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا
ہے لیکن ختم نہیں کیا گیا ، اسی طرح ود ہولڈنگ ٹیکس بھی حل طلب مسئلہ تھا اسے پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ انہوںنے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا جس سے مشکلات میں گھرے تاجر طبقے کو ریلیف مل سکے ، آنے والے دنوں میں اس حوالے سے حتمی مشاورت کر کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں انجم نثار اور ریجنل چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشد نے وفاقی بجٹ پر اپنے رد عمل
میں کہا کہ بجٹ کو نہ مثبت اور نہ منفی کہا جا سکتا ہے بلکہ روایتی بجٹ ہے۔ایف پی سی سی آئی کی کچھ تجاویز پر عمل کیا گیا ہے۔پچھلے سال کا ریونیو دٹارگٹ بھی پورا نہیں ہو سکا۔آنے والے وقت میں پتہ چلے گا کہ کرونا معیشت کو مزید کتنا نقصان پہنچتا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ تقریر سے تو ریلیف ملتا نظر آرہا ہے تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی اندازہ لگایا جاسکے گے۔ زراعت کا شعبہ ٹڈی دل کی وجہ سے بہت بری طرح متاثر ہوا
ہے،بعض علاقوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔نئے ٹیکس عائد نہ کرنے اور پہلے سے عائد ٹیکسوں میں کمی کا فیصلہ خوش آئند ہے،حالات بہتر ہونے پر منی بجٹ بھی آئے گا۔ایف پی سی سی آئی کے عہدیداران کا مزید کہنا تھا کہ حکومت موجودہ صورتحال میں یہی کچھ کرسکتی تھی نئے ٹیکس عائد نہ کرکے ریلیف دینے کی کوشش کی گئی۔ایکسائز ڈیوٹی میں بھی کمی کی گئی ہے۔میاں انجم نثار اور ڈاکٹر محمد ارشد نے حکومت سے ایس او پیز کے
ساتھ مارکیٹس پورا ہفتہ کھولنے اور معیشت بہتر ہوتے ہی منی بجٹ پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔حکومت نے کسٹم ڈیوٹی کو کم کیا ہے،امپورٹ پر ڈیوٹی ٹیکس کم کیا گیا ہے،ریٹیل پر ٹیکس کم کر کے بارہ فی صد کردیا گیا ہے۔شناختی کارڈ کی شرط پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردیاگیاہے۔صحیح رسپانس ایک دو دن کے بعد تفصیلات جاننے کے بعد ہی دیا جا سکے گا۔ایک دو روز میں پتہ چلے گا کہ یہ ریلیف کہنے تک ہے۔اس سال کے بجٹ
تجاویزمیں جو چیزیں کہیں گی وہ مانی گئیں ہیں۔کرونا وائرس کے باعث مشکل حالات میں بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ابھی بجٹ میں پوشیدہ چیزیں سامنے آئیں گی تو سمجھ آئے گی۔گروتھ اوررینٹیڈ بجٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن موجودہ صورتحال میں یہی ہوسکتا تھا۔انہوں نے مزید کہاکہ ڈیفنس کے بجٹ اور تنخواہوں پینشن میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد ارشد نے مزید کہاکہ مسائل بہت زیادہ ہے وسائل بہت کم ہیں۔حکومت کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنانا بھی
مناسب نہیں ہے۔بین الاقوامی برادری کو ہماری مدد کرنی چاہیے تاکہ ہم اس صورتحال سے باہر نکل سکیں۔لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وفاقی بجٹ 2020-21پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کروناوائرس سے پیداشدہ صورتحال کے تناظر میں غیرمعمولی اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ وفاقی بجٹ تقریر کے بعد لاہور چیمبر کے صدر عرفان اقبال شیخ نے سینئر نائب صدر علی حسام اصغر اور نائب صدر میاں زاہد جاوید احمد
کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ حکومت نے ٹیکس فری بجٹ کے ساتھ چند اور اچھے اقدامات اٹھائے ہیں لیکن لاہور چیمبر کی جانب سے کیے جانے والے کئی مطالبات پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مارک اپ کی شرح کم کرکے چار تا پانچ فیصد کی شرح پر لانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات بڑھانے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کسی
حصوصی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نقصان دہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز قومی خزانے پر بوجھ ہیں ، ان کے متعلق پالیسی وفاقی بجٹ کا حصہ ہونا چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ انرجی کاسٹ میں کمی ، ایس ایم ایز کے لیے بلاسود قرضوں کا اجراء، ریفنڈز کے سسٹم میں مزید فعالیت، ودہولڈنگ ٹیکس کا مکمل خاتمہ یا نمایاں کمی، امپورٹ کی سطح پر ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ اور سرٹیفیکیشن کے حصول میں مدد لاہور چیمبر کے مطالبات
تھے جن کا بجٹ میں ذکر نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ لاہور چیمبر ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات میں میں کمی اور حلال فوڈ و انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹرز کے لیے بھی خصوصی پالیسیوں کی توقع کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خام مال پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی، ٹیرف ریشنلائزیشن ، مینوفیکچررز کی طرف سے خام مال اور مشینری کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیوں کا خاتمہ اچھے اقدامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمگلنگ کے لیے کشش رکھنے والی مصنوعات پر
ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ بھی اچھے اقدامات ہیں۔ آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکرٹری جنرل نعیم میرنے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں چھوٹے کاروبار کو نظرانداز کردیا گیاہے۔ شناختی کارڈ کی شرط غیر دستاویزی معیشت کو مزید فروغ دے رہی ہے۔کروانا کے تناظر میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جانی چاھئے تھی۔چھوٹے تاجروں کے لئے آسان قرضہ سکیم کا اجرا بھی نہیں کیا گیا۔چھوٹا کاروبار
ملک کی چالیس فیصد ورک فورس کو روزگار فراہم کرتاہے۔ناقص حکومتی پالیسیوں نے 51 ارب ڈالر کی معیشت سکیڑ دی۔ ناکام حکومت کرونا کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے۔اگر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا تو بجٹ خسارہ 7 فیصد سے کم ہوکر 4.4 فیصد کیسے کریں گے۔ حکومت فائلر اور نان فائلر کا چکر چلا کر بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام سیکٹرز کو سہولت دی جانی چاہیے ۔ عوامی حلقوںنے بجٹ کو محض ایک تقریر اور طوطا مینا کی کہانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ، حکومت اربوں ، کھربوں کی باتیں کرتی ہے جبکہ عوام کیلئے مہنگائی کی وجہ سے گھر کا بجٹ بنانا مشکل ہو گیا ہے ۔