کراچی(نیوزڈیسک) کراچی چیمبر آف کامرس نے وفاقی بجٹ2015-16 میں بلاواسطہ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ٹیکس نیٹ میں شامل ٹیکس دہندگان پر عائدکرنے پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے وفاقی بجٹ میں صرف زراعت، کارپوریٹ سیکٹر اور خیبر پختونخوا کی صنعتوں کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے بجٹ دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد جاری تفصیلی تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ایس ایم ای سیکٹرملک کی جی ڈی پی میں37 فیصد کا حصہ دار ہونے کے ساتھ ایک تہائی آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے مگر بدقسمتی سے وفاقی بجٹ2015-16 میں اس سیکٹر کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔کراچی چیمبر نے ایف بی آرسے چھوٹ دینے کے اختیارات واپس لینے اور ان اختیارات کو پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس قسم کے اقدام کے ذریعے ٹیکس نظام میں موجود خامیوں اور کرپشن کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
کراچی چیمبر نے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کرتے ہوئے32فیصد کرنے، شیئرز میں سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ جبکہ اسسمنٹ پر ٹیکس کریڈٹ کی مد میں15فیصد سے 20 فیصد اضافے کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے کارپوریٹائزیشن میں مدد ملے گی۔
رعایتی ایس آر اوز کا 3سال کے عرصے میں مرحلے وار خاتمہ بھی مثبت اقدام ہے، موجودہ بجٹ میں132ارب روپے کی رعایتوں کوختم کیا گیاہے جس سے مالی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ تجزیے میں اس امر کو خوش آئند قراردیاگیاکہ مناسب سہولتیں نہ ہونے کے باعث سبزیاں اور پھل خراب ہوجانے کے مسئلے سے نمٹنے کیلیے حکومت نے نئی صنعتوں کو 3سال ٹیکس ہالی ڈے کی اجازت دی ہے جو کولڈ چین سہولتیں اور زرعی مصنوعات کی اسٹوریج کیلیے گودام کی سہولت مہیا کرنا چاہتی ہیں۔
حلال گوشت مصنوعات بنانے والی وہ کمپنیاں جو نئے پلانٹس لگانے کی خواہش مند ہیں اور 31دسمبر2016تک حلال سرٹیفیکیشن حاصل کرلیںانہیں 4سال کیلیے چھوٹ دی گئی ہے جو درست اقدام ہے۔کراچی چیمبر نے کہاکہ چاول کی ملز کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ٹیکس سال 2015 میں کم ازکم چھوٹ سے برآمد کنندگان کو اچھا خاصا زرمبادلہ کمانے میں مدد ملے گی، زرعی مصنوعات کو ودہولڈنگ ٹیکس میں حاصل چھوٹ کے دائرہ کارکی فشریز سیکٹر تک توسیع بھی خوش آئند ہے، درآمد کی گئی زرعی مشینری و آلات پر نان ایڈجسٹ ایبل سیلز ٹیکس کو 17سے 7فیصد پر لانے سے زرعی پیداواربڑھانے اور اس شعبے میں خودکار آلات کے استعمال کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
یہ تجویزکراچی چیمبر نے اپنی بجٹ تجاویز میں حکومت کوپیش کی تھی مگر بدقسمتی سے کراچی چیمبرکی زیادہ تر تجاویز کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا بالخصوص وہ تجاویز جو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور کسٹم کے کئی کالے قوانین کو منسوخ کرنے یا ترامیم کرنے کے سلسلے میں پیش کی گئی تھیں۔ تاجر برداری کا یہ دیرینہ مطالبہ رہاہے کہ ان لینڈ ریونیو کے افسران کے صوابدیدی اختیارات میں کمی کی جائے کیونکہ اس قسم کے اختیارات کو تاجروں وصنعت کاروں کو ہراساں کرنے کیلیے استعمال کیاجاتا ہے ایسے کالے قوانین ٹیکس وصولیاں بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
کراچی چیمبر کے مطابق موجودہ ٹیکس گزاروں کو ریلیف فراہم کرنے اور ٹیکس نیٹ سے باہر بڑی مچھلیوں کیخلاف مربوط اقدامات کرنے کے بجائے حکومت نے ایک بارپھر بلاواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہوئے شرح میں اضافہ کردیا ہے، موجودہ بنیادی سیلز ٹیکس کو درحقیقت 17 فیصد سے بڑھا کر22فیصد کر دیا گیاہے کیونکہ غیر رجسٹرڈ افراد کو اشیا فروخت کرنے پر اضافی ٹیکس کو بڑھا کر1فیصد سے 2فیصد کر دیاگیاہے۔
ملک بھر میں99فیصد افراد غیر رجسٹرڈ ہیں لہذا اس اقدام کے نتیجے میں رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں کو ہی یہ 2فیصد اضافی ٹیکس دینا پڑے گا اوراس اضافی ٹیکس کا بوجھ عوام، صارفین اور کم آمدن طبقے پر پڑے گا۔کراچی چیمبرنے کہاکہ مجموعی ٹیکس وصولیوں میں اضافے کیے لیے تمام بینکاری لین دین اور نان فائلرز کی جانب سے جاری ہونے والے انسٹرومنٹس پر ایک نئے قسم کا ٹیکس 0.6 فیصد کی شرح سے نافذ کیا گیا ہے جس کا مقصد ٹیکس وصولی کو بڑھانا ہے لیکن اس اقدام سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا بوجھ بھی رجسٹرڈ افراد پر ڈال دیا گیا ہے۔
اس اقدام سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونا مشکل ہیں کیونکہ ایف بی آر ماضی میں بھی غیر رجسٹرڈ افراد کی فروخت پر ٹیکس عائد کرتا رہا ہے لیکن وہ نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہا، اس اقدام سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور اس کا بوجھ بھی صارفین پر ہی منتقل ہوگا۔ کے سی سی آئی کے مطابق بینکاری لین دین پر0.6فیصد ٹیکس کے نفاذ کا انجام بھی وہی ہونا ہے جبکہ اس اقدام سے رجسٹرڈ افراد اور بینکوں کیلیے اکاونٹنگ کے عمل میں مزید پیچیدگیاں آئیں گی۔
اس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑیں گے کیونکہ تمام اشیا کی خریدوفروخت کے سلسلے میں ہونیوالا لین دین یا تو نقد یا پھر ہنڈی نظام پر منتقل ہو جائیگا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ بڑی مقدار میں اجناس اور روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی تجارت میں منافع کی شرح 0.5فیصد سے 1فیصد کے درمیان ہوتی ہے جو انتہائی کم ہے لہذا رجسٹرڈ افراد کیلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بینکاری لین دین پر 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دے سکیں۔ کراچی چیمبر نے تجویز دی کہ بینکاری لین دین اور انسٹرمنٹس پر 0.6فیصد نئے ٹیکس کو نافذ کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاوت کی جائے۔
کراچی چیمبرآف کامرس کے نئے ٹیکسوں پرتحفظات
13
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں