لاہور(این این آئی)پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے20ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ میں ایف آئی اے حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کے بارے میں حقائق جمع کرنا بیحد مشکل کام ہے۔
حکام کے مطابق ایسے اسمگلرز صرف اجنبی ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ خاندان کے فرد، دوست یا قریبی جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں ایسے افراد کو ملازمت، شادی، بہتر معاشی حالات جیسے سہانے خواب دکھا کر اسمگلنگ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔حال ہی میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے شادی کے بہانے نوجوان لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کی بھی ناکام کوششیں کی گئیں جس کے بعد حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کئی چینی باشندوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018 جبکہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے ‘اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل’ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے جرم میں مطلوب افراد کی ریڈ بک میں شامل 43 اسمگلرز کا تعلق پنجاب، اسلام آباد، سندھ اور 12کابیرون ملک سے ہے۔ایف آئی اے نے ایک سال کے عرصے کے دوران 19 انتہائی مطلوب افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔اسی طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران تین لاکھ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک سے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان واپس بھجوائے گئے ہیں۔