اسلام آباد(نیوز ڈیسک )امریکی سائنس دانوں کے مطابق نئے شواہد سے اس خیال پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں عالمی حدت میں اضافہ رک گیا ہے۔امریکی حکومت کی ایک لیبارٹری کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ رک جانے کی باتیں غلط اعداد و شمار کی وجہ سے محض ایک مفروضہ ہیں۔امریکہ کے سمندری اور فضائی تحقیق کے ادارہ اوشیانوگرافک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن (Noaa) کے سائنس دانوں کے مطابق تازہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی حدت میں ہونے والا اضافہ تھما نہیں ہے۔’دنیا میں 2014 میں کاربن کے اخراج میں اضافہ نہیں ہوا‘لیبارٹری کے سائنس دان ڈاکٹر ٹامس کیرل کے مطابق ’ہمیں امید ہے کہ اس سے عام لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے گا کہ اصل میں آج بھی درجہ حرارت میں اضافے کا عمل رکا نہیں ہے۔‘اس تحقیق پر بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ریڈنگز کے ڈاکٹر ایڈ ہاکنز نے کہا: ’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں عالمی درجہ حرارت میں کمی پرانے تصور کے برعکس بہت معمولی ہے۔‘عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے تھم جانے کے تصور کی وجہ سے کئی سوالات نے جنم لیا تھا کہ 20ویں صدی کے آخری حصے کے برعکس اب درجہحرارت میں اضافہ کیوں رک گیا ہے۔درجہ حرارت میں اضافے کے رک جانے کے بارے میں کئی وضاحتیں پیش کی گئیں جس میں آتش فشانی عمل اور شمسی، سمندری سرگرمیوں میں تبدیلی شامل ہے۔عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے رک جانے کے تصور کی وجہ سے کئی سوالات نے جنم لیا تھادرجہ حرارت کے بارے میں تازہ تجزیے میں سمندری لہروں کی سرگرمیوں کے مشاہدے اور سمندر کی سطح کے درجہ حرارت کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔محکمہ موسمیات ہیڈلی سینٹر کے ڈاکٹر پیٹر سٹوٹ کے مطابق نتائج سے اب بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ 15 سال کے دوران درجہ حرارت میں اضافہ کے رجحان میں اس سے پہلے کے 15 سال کے مقابلے میں کمی ہوئی ہے اور عالمی حدت میں اضافہ زیادہ یکسانی کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ موسموں کے نظام میں قدرتی تغیر پذیری اور دیگر اندرونی پہلو اب بھی اثر رکھتے ہیں اور یہ اہمیت کے حامل ہیں اور اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیئرز فوسٹر کے مطابق ایک پیچیدہ موضوع پر حالیہ تحقیق حرفِ آخر نہیں ہے۔یہ تحقیق اس حقیقت سے الگ نہیں کر سکتی کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ہمیں موسم میں مختصر دورانیے کے لیے آنے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں