لاہور( این این آئی ) لاہور ہائیکورٹ نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت سے متعلق درخواستیں خارج کردیں۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پیراگون ہائوسنگ سکینڈل میں گرفتار خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیراگون سوسائٹی خواجہ برادران کی ملکیت ہے، ان کے شراکت دار قیصر امین وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔پیراگون غیر قانونی سکیم ہے، ٹی ایم اے نے سکیم کوعبوری منظور کیا، ایل ڈی اے نے پیراگون کی منظوری کی درخواست مسترد کی تھی۔ نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1997 میں ایک پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی بنائی گئی جس نے ایئر ایونیو سوسائٹی بنائی، یہ کمپنی قیصر امین بٹ اور سعید رفیق کے اہل خانہ کی ملکیت ہے۔700 کینال زمین لی گئی جسے2000 میں اسے بیچ دیا گیا جبکہ 2006 میں ڈیبونی نام سے ایک کمپنی بنا لی گئی اور خواجہ سعد رفیق کے نام پر کروڑوں روپے آئے۔وکیل نے عدالت میں بتایا کہ نیب کی وجہ سے یہ لوگ متحرک ہوگئے اور اس کمپنی کو ختم کرکے ایک نئی لمیٹڈ کمپنی ایئر ایونیو بنالی جبکہ خواجہ خاندان نیب کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔انہوں نے بتایا کہ خواجہ برادران کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری بند کردی گئی اور یہ انکوائری اس لیے بند کی کیونکہ یہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے پرائز بانڈ نکل آئے۔اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ پرائز بانڈ کا اس سے کیا تعلق ہے جس پر نیب وکیل نے بتایا کہ خواجہ برادران کے 2007 اپریل میں 4 کروڑ 90 لاکھ کے بانڈ زنکلے تو آمدن سے زائد اثاثے ثابت نہیں ہو سکتے تھے اس معاملے کے بعد خواجہ برادران نے پیراگون بنا لی۔
وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلا بیان چیئرمین نیب کی مرضی کا نہیں تھا، 3سال خواجہ برادران کے خلاف آمدن سے اثاثے کی انکوائری چلی، انکوائری کسی پرائزبانڈ کی وجہ سے بند نہیں ہوئی، انکوائری نیب نے بند کرتے ہوئے معذرت بھی کی تھی۔وکیل صفائی نے مزید استدعا کی کہ بجٹ اجلاس کے باعث عبوری ضمانت منظورکی جائے، اجلاس میں تجاویزکے لیے ماہرین سے مشاورت ضروری ہے، درخواست ضمانت پرحتمی فیصلے تک عبوری ضمانت منظورکی جائے۔بعد ازاں عدالت کے دو رکنی بینچ نے دلائل مکمل ہونے پر ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے انہیں خارج کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق خواجہ برادران کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کا امکان ہے ۔