حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو آپؓ اپنے گھر جا کر مصلے پر بیٹھ کر رونے لگے، حتیٰ کہ آپ کی تمام داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ آپؓ کی بیوی نے آپؓ سے دریافت کیا کہ آپ روتے کیوں ہیں؟ تو فرمایا۔ ’’میری گردن میں امت محمدیہؐ کا کل بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ میں اپنی رعایا کے بھوکے، ننگے، فقیر مریض اور مظلوم و محتاج، قیدی و مسافر، بوڑھے اور بچے اور عیال دار غرض تمام مصیبت زدوں کی خبر گیری کے متعلق
غور کرتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کے متعلق خدا تعالیٰ مجھ سے باز پرس نہ کر بیٹھے اور مجھ سے جواب نہ بن آئے۔ اسی فکر میں رو رہا ہوں۔‘‘ (تاریخ الخلفاء صفحہ 164)۔ اس بات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ حکومت ایک بہت بڑا بوجھ اور ذمہ داری کا کام ہے خدا ترس حاکم مسند حکومت پر بیٹھ کر اپنے بھی حاکم خدا تعالیٰ کو بھول نہیں جاتے بلکہ اس کی باز پرس سے ڈرتے رہتے ہیں اور رعایا کے ہر فرد کا خیال رکھتے ہیں۔