ریاض(نیوزڈیسک) تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پانی کی قلت نے بے حال کردیا ہے ، اندازہ ہے کہ آئندہ تیس سالوں میں میٹھے پانی کے ذرائع بالکل ختم ہوجائیں گے۔تفصیلات کے مطاب مشرقِ و سطی میں پانی کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے اور سعودی عرب اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جو کہ اپنے میٹھے پانی کے ذخائر میں سے 900 فیصد سے زائد خرچ کرچکا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں موجود زیرِ زمین پانی آئندہ سالوں میں بالکل ختم ہوجائے گا، یاد رہے کہ اس صحرائی ملک میں کوئی دریا نہیں بہتا اور نہ ہی یہاں کوئی جھیل ہے، اس کے باوجو د سعودی عرب میں پانی کی کھپت فی فرد 265 لیٹر روزانہ ہے جو کہ یورپی یونین کے ممالک سے دگنی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی قلت کے ساتھ پانی کا ضیاع بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی ضرور ت ہے۔سعودی عرب فی الحال اپنے بجٹ کا دو فیصد پانی کی سبسڈی پر خرچ کررہا ہے جو کہ ایک خطیر رقم ہے۔2015 میں سعودی عرب نے فیکٹریوں میں پانی کے استعمال پر ٹیکس فی کیوسک چار ریال سے بڑھا کر نو ریال کر دیا تھا۔ حکومت گھروں میں استعمال کے لیے پانی پر بھاری سبسڈی دیتی ہے اس لیے پانی مہنگا نہیں ملتا۔ 2011 میں ہی سعودی عرب میں اس وقت پانی اور بجلی کے وزیر نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں پانی کی طلب ہر برس سات فیصد کی حد سے بڑھ رہی ہے اور اگلی ایک دہائی میں اس کے لیے 133 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔ تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پانی کی قلت نے بے حال کردیا ہے ، اندازہ ہے کہ آئندہ تیس سالوں میں میٹھے پانی کے ذرائع بالکل ختم ہوجائیں گے۔تفصیلات کے مطاب مشرقِ و سطی میں پانی کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے اور سعودی عرب اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جو کہ اپنے میٹھے پانی کے ذخائر میں سے 900 فیصد سے زائد خرچ کرچکا ہے۔