لاہور( این این آئی )پاکستان میں جمہوریت آج ( بدھ ) کامیابی کی ایک اور منزل حاصل کر لے گی ،ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عوامی نمائندوں کا انتخاب آج 25جولائی بروز ( بدھ )کو ہوگا ، مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں سے کون آئندہ پانچ سال کیلئے ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا اس کا فیصلہ 10کروڑ 59لاکھ55ہزار409مرد و خواتین ووٹرز کریں گے ، الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے
تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں ،پولنگ کا عمل صبح 8بجے سے شام 6بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گا ، کسی بھی نا شگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کو پیشگی الرٹ کر کے تمام سہولیات یقینی بنانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ،حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دئیے گئے ہیں جبکہ کنٹرول رومز کو بھی آپریشنل کر دیا گیا ،الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق آئندہ پانچ سال کیلئے نئی حکومت کے قیام کیلئے ووٹنگ آج 25جولائی بروز( بدھ ) کو ہو گی جس کیلئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کے 270اور صوبائی اسمبلیوں کی 570نشستوں کے لئے ساڑھے 12ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔پنجاب میں 6کروڑ 6لاکھ72ہزار870،سندھ میں 2کروڑ23لاکھ97ہزار244،خیبر پختوانخواہ میں 1 کروڑ 53 لاکھ 16 ہزار 299، بلوچستان میں 42لاکھ99ہزار494،فاٹا میں25لاکھ10ہزار154جبکہ اسلام آباد میں7لاکھ65ہزار348رجسٹرڈ ووٹرز اپنے پسندیدہ نمائندوں کا چناؤکریں گے ۔فوج کی نگرانی میں بیلٹ پیپرز سمیت پولنگ کادیگر سامان پریذائیڈنگ آفیسرز کے حوالے کر دیا گیا ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات 2018ء کیلئے ملک بھر میں مجموعی طور پر85ہزار 307پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں ، عوام کی سہولت کیلئے ہر ایک کلو میٹر بعد ایک پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے۔23ہزار 358مردانہ جبکہ 21ہزار 679پولنگ اسٹیشنز خواتین کیلئے علیحدہ بنائے گئے ہیں، خواتین اور مردوں کے 40ہزار 236مشترکہ پولنگ اسٹیشنز بھی بنائے گئے جبکہ ٹینٹ میں قائم پولنگ اسٹیشنز بھی قائم کئے گئے ہیں۔17ہزار7پولنگ اسٹیشنز کو
انتہائی حساس جبکہ 20ہزار789کو حساس قرار دیا گیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے ووٹنگ کا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں پولنگ افسر ووٹر کا اصل قومی شناختی کارڈ چیک کرے گا، پولنگ افسرشناختی کارڈ کی چیکنگ کے بعد ووٹرلسٹ میں درج نام چیک کرے گا اور ووٹر کا نام اور سلسلہ نمبر پولنگ ایجنٹس کے لیے بلند آواز میں پکارا جائے گا ۔الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹر کا سیدھی لکیر دے کر
لسٹ سے نام کاٹ دیا جائے گا جس کے بعد کاؤنٹر فائلر پر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان لیا جائے گا، پھر انگوٹھے کے ناخن کے جوڑ پر ان مٹ سیاہی کا نشان لگایا جائے گا۔اس کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر بیلٹ پیپر کی پشت پر دستخط کرے گا، دستخط لینے کے بعد ووٹر کو سبز رنگ اور سفید بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اور ووٹر ووٹنگ اسکرین کے پیچھے جا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگائے گا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کا سبز بیلٹ پیپر سبز بکس جبکہ صوبائی اسمبلی کا سفید بیلٹ پیپر سفید باکس میں ڈالا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے شروع ہوگا جو بغیر کسی وقفے کے شام چھ بجے ختم ہوگا، پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشن کا دروازہ بند کر دیا جائے گا اور وقت ختم ہونے پر صرف پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں موجود ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات کے لیے 22کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں اور پہلی بار سکیورٹی فیچرز پر مبنی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے مطابق آفیشل کوڈ مارک اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کے دستخط کے بغیر بیلٹ پیپر گنتی سے خارج ہوگا۔ پی سی ایس آئی آر کی جانب سے معیاری سیاہی فراہم کی گئی ہے جو اپنی جگہ برقرار رکھے گی ۔واٹر مارک والے بیلٹ پیپر کے سوا دوسرا کوئی بیلٹ پیپر بھی گنتی سے خارج ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق صرف مخصوص 9 خانوں کی مہر والا بیلٹ پیپر ہی گنتی میں شامل ہوگا۔جبکہ وہ بیلٹ پیپر گنتی میں شامل ہوگا جس پر مہر کا نشان کسی خاص امیدوار کے لیے واضح ہو۔دوسری جانب کاغذ یا کوئی چیز لگانے سے بھی بیلٹ پیپر خارج تصور ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ایک ہی نشان پر ایک سے زائد بار یا ایک ہی نشان پر مہر والا بیلٹ پیپر تسلیم ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کے روز مجموعی طور پر 16لاکھ افراد ڈیوٹی سرانجام دیں گے
میں جن میں تقریباًساڑھے چار لاکھ پولیس،ساڑھے تین لاکھ سے زائد فوج کے جوان سکیورٹی پر مامور ہوں گے اور فوجی جوان پولنگ اسٹشینز پر پریزائیڈنگ آفیسرز کے ماتحت کام کریں گے۔انتہائی حساس اورحساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دئیے گئے ہیں جبکہ کنٹرول رومز کو بھی آپریشنل کر دیا گیا ہے ۔ لاہور کے 711 پولنگ سٹیشن حساس قرار دئیے گئے ہیں اور ان پولنگ سٹیشنزز پر 2886سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق حساس قرار دئیے گئے پولیس اسٹیشنز پر فوج اور پولیس کی اضافی نفری تعینات ہو گی۔ملک بھرمیں 85ہزار307پریزائیڈنگ افسران ڈیوٹی دیں گے،5لاکھ10ہزار356اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران، 2 لاکھ 55 ہزار 178 پولنگ افسران ڈیوٹی دینگے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے دوران ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر او) یا سیشن جج کے اختیارات کے تحت آنے والے مختلف جرائم کی نشاندہی اور
اس حوالے سے ممکنہ سزا کا اعلان بھی کردیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹر کو زبردستی پولنگ اسٹیشن سے نکالنا اور ووٹر کو ووٹ ڈالے بغیر باہر جانے پر مجبور کرنا انتخابی بدعنوانی ہوگی۔بالواسطہ یا بلاواسطہ ووٹر کو ووٹ ڈالنے یا روکنے کے لیے کوئی تحفہ دینا، پیشکش یا وعدہ رشوت تصور ہوگا جبکہ کسی شخص کو ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے پر مجبور اور قائل کرنے لیے طاقت یا تشدد کا استعمال بھی جرم ہوگا۔اس کے علاوہ دھمکی دینا، زخم یا نقصان پہنچانا،
مذہبی شخصیت کی خوشنودی یا ناراضی سے متعلق دھمکی دینا بھی غیر قانونی جبکہ ووٹر کو اغوا، دھونس یا دھوکہ دہی اور ناجائز اثر رسوخ بھی جرم تصور ہوگا۔بیلٹ پیپر یا سرکاری مہر خراب کرنا، پولنگ اسٹیشن سے بیلٹ پیپر اٹھانا، بیلٹ باکس میں ووٹر کی پرچی کی جگہ دوسرا بیلٹ پیپر ڈالنا، بغیر اجازت کسی دوسرے کو بیلٹ پیپر مہیا کرنا اور بیلیٹ باکس یا بیلٹ پیپر اٹھالے جانا یا باکس کی سیل توڑنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔پولنگ عمل میں خلل ڈالنا،
جیسے انتخابی عمل کو کسی سرکاری ملازم کی مدد سے روکنا یا امیدوار کا انتخاب ممکن بنانے کی کوشش، پولنگ اسٹیشن پر بار بار ووٹ ڈالنے کی کوشش، پولنگ کے دوران آتشی اسلحہ کی نمائش یا ہتھیار رکھنا اور سرکاری ملازم کو تشدد کا نشانہ بنانا بھی غیر قانونی عمل ہو گا۔پولنگ اسٹیشن کے نزدیک شور کرنا جس سے ووٹر پریشان ہوں، انتخابی بے ضابطگی جبکہ پریزآئڈنگ افسر یا عملے کے کام پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور
پولنگ اسٹیشن کی 4 سو میٹر کی حدود میں ووٹر کو قائل کی کوشش غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔الیکشن ایجنٹ کے لیے مخصوص جگہ یا ارد گرد 100 میٹر کے فاصلے پر کوئی نوٹس یا انتخابی نشان، بینر یا امیدوار کے خلاف پرچم لگانا جرم ہوگا۔ووٹر نے کس کو ووٹ دیا ہے، یہ جاننے کی کوشش کرنا یا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ایسی معلومات دینا یا ڈالے ہوئے ووٹ کی تصویر لینا یا کوشش کرنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق ان تمام جرائم میں سیشن جج مجرم کو 3 سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنا سکے گا۔پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے اطراف میں پیٹرولنگ بھی کریں گے جبکہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جائے گی ۔