اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت سات افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل )میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے تمام افراد کو 12 جولائی کو سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ نے ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم چند روز قبل آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی کے خلاف درج ہونے والے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ہونے والی ابتدائی تفتیش کی بنا پر دیا ہے۔عدالت نے چیئرمین نیب ،چیئرمین ایف بی آراورایس ای سی پی کو بھی نوٹسز جاری کئے جبکہ تمام افراد کی حاضری کویقینی بنانے کے لئے آئی جی سندھ کو بھی حکم جاری کیا گیا ہے جن دیگر افراد نے بینک اکاؤنٹس سے فوائد حاصل کیے ان میں طارق سلطان ، ارم عقیل، محمد اشرف، اقبال آرائیں، محمد عمیر ،عدنان جاوید ،قاسم علی، انورمجید ،عبدالغنی مجید ،اسلم مسعود ،عارف خان ،نورین سلطان، کرن امان ،نصیرعبداللہ لوتھہ،محمداقبال خان نوری ،اعظم وزیرخان شامل ہیں۔اس سے قبل وزارت داخلہ نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت سات افراد کے نام سٹاپ لسٹ میں ڈالے تھے۔بی بی سی کے مطابق سیکرٹری داخلہ کے پاس یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کا نام ایک ماہ کیلئے سٹاپ لسٹ میں ڈال سکتے ہیں لیکن اس اقدام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس کے علاوہ پاکستان میں پروویژنل آئیڈینٹیفیکیشن لسٹ (عارضی شناختی فہرست) بھی متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت ایف آئی اے کے حکام کے پاس بھی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کا نام اس لسٹ میں شامل کرسکتے ہیں۔
اس اقدام کا مقصد کسی بھی ایسے شخص کو بیرون ملک جانے سے روکنا ہے جو کسی بھی مقدمے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہو۔ تاہم اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل نہ کیا گیا ہو۔وزارت داخلہ کے پاس کسی بھی شخص کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا بھی اختیار ہے تاہم اس پر وقت کی حد مقرر نہیں ہے اور کسی بھی شخص کا نام کسی بھی وقت نکالا جاسکتا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلئے درخواست بھی دے رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بشیر میمن کے بھائی کراچی کے ایک حلقے سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اس لیے اْنھیں اس عہدے سے ہٹایا جائے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو واضح ہدایات دی ہیں کہ ڈی جی ایف آئی اے کو عدالت عظمیٰ کو بتائے بغیر اْنھیں کسی دوسری جگہ ٹرانسفر نہ کیا جائے۔