پیر‬‮ ، 14 جولائی‬‮ 2025 

سپریم کورٹ اور (ن)لیگ آمنے سامنے آ کھڑے ہوگئے،پارلیمنٹ سپریم کورٹ کیخلاف کون سا قانون لاسکتی ہے؟ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے انکشافات

datetime 7  ‬‮نومبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آئی این پی) سابق اٹارنی جنرل پاکستان عرفان قادر نے کہا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اور (ن)لیگ آمنے سامنے آ کھڑے ہوگئے،دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں،عدالت کو یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر کسی پارلیمنٹیرین کو تاعمر کیلئے نا اہل کردے، خدا کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں وکالت ختم ہو چکی ،

کوئی وکیل سپریم کورٹ کے آگے قانونی نقطہ اٹھا ہی نہیں سکتا ،اگرکوئی اٹھانے کی جرات کرے گا تواس کا لائسنس معطل کر دیا جائے گا،پانامہ فیصلے میں مکمل طور پر تضادات پر مبنی باتیں ہیں اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہا گیا، اب جو عدلیہ ہے یہ چوہدری عدلیہ کا تسلسل ہے،ان کا ایسے فیصلے کرنے کا طریقہ کار بن گیا ہے، عدلیہ نے وکیلوں میں ہمت ہی نہیں چھوڑی کہ وہ ججز کے سامنے ان کے نا پسندیدہ نکات پر دلائل دیں، میں کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر دلائل دے سکتا ہوں مگر وہ مجھے وہاں ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں کریں گے،مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں قانون لا سکتی ہے کہ 184(3) میں لوگوں کو سنے بغیر آپ فیصلہ نہیں سنا سکتے، یا بغیر سنے سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے تو ایسے تمام فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہو، نیب کیس میں جو ایشوز 184(3)کے دائرے کار میں لائے گئے اور فیصلہ دیا گیا وہ اس دائرے کار میں ہی نہیں آتے، سپریم کورٹ نے اپنے سینکڑوں مقدمات میں لکھا کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ،اس کیس میں سپریم کورٹ نے پورا ٹرائل کر کے ان کو نا اہل کر دیا، عدلیہ نے چیئرمین نیب کو ہدایت دی کہ ریفرنس فائل کریں مگر قانون میں تو ایسی کوئی بات نہیں جس کے مطابق سپریم کورٹ نیب کو ہدایت دے سکے، اس کیس میں 184(3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سپریم کورٹ کو لائسنس کیسے مل گیا کہ وہ کسی بھی طرح 184(3)کا استعمال کر کے منتخب رکن کو نا اہل کر دیا جائے، اثاثے چھپانے پر الیکشن کمیشن فیصلہ کر سکتا ہے نہ کہ عدالت خود ہی سارے فیصلے کرے۔وہ منگل کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ اگر احتساب عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتی ہے تو پھر یہ 400یا500صفحوں کی آبزرویشن لکھنے کی کیا ضرورت تھی،

عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نظرثانی نہیں کریں گے مگر پھر سارے فیصلے کی نظرثانی بھی کرلی گئی، فیصلے میں مکمل طور پر تضادات پر مبنی باتیں ہیں اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فیصلے پر ریویوپٹیشن کا مقصد ہوتا ہے کہ فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور عدالت غلطیوں کا ازالہ کرتی ہے یا پھر غلطیوں کو رد کر دیتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں کوئی قانونی سقم نہیں ہے، یہ فیصلہ نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے، میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اور (ن)لیگ آمنے سامنے کھڑے ہوئے ہیں، اس وقت دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے مگر غیر قانونی فیصلے کریں اور 500صفحے لکھ کر گاڈ فادر کا حوالہ بھی دیں، پھر کہیں کہ کوئی عدالت اس کا اثر بھی نہ لے، سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی خود ہی نفی بھی کر رہی ہے اور مدعہ علیہ کو برا بھلا بھی کہہ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گیلانی صاحب کی نا اہلی کے فیصلے پر کہا تھا کہ یہ غیر قانونی فیصلہ ہے، حکومت کے اٹارنی جنرل کو کہنا چاہیے کہ یہ فیصلہ آئین و قانون سے متصادم ہے اور اس کے آئین کی مناسب شقوں کے حوالے دیئے جائیں تو سپریم کورٹ اسے رد نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ خود آن ٹرائل ہے اور آئین و قانون سے مبرا نہیں ہے، عرفان قادر نے کہا کہ خدا کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں کہ پاکستان میں وکالت ختم ہو چکی ہے،کوئی وکیل سپریم کورٹ کے آگے قانونی نقطہ اٹھا ہی نہیں سکتا جو ان کو پسند نہیں آتا، یہ والا سپریم کورٹ اپنی ناپسند کے قانونی نقاط اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دیتا اور اگر کوئی اٹھانے کی جرات کرے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا لائسنس معطل کر دیا جائے یا نوٹس جاری کر دیا جائے۔ عرفان قادر نے کہا کہ اب جو عدلیہ ہے یہ چوہدری عدلیہ کا تسلسل ہے

،ان کا ایسے فیصلے کرنے کا طریقہ کار بن گیا ہے، پاکستان میں آزاد وکالت ختم ہو چکی ہے، پاکستان میں کوئی وکیل آزادانہ طور پر کیس کو لیڈ نہیں کر سکتا، میں یہ بار بار کہتا رہا ہوں اور بار بار کہوں گا کہ خدا را لوگوں کے دلائل مکمل سنیں،عدلیہ کی جانب سے کہا گیا کہ وکیلوں نے دلائل ہی نہیں دیئے، اس لئے وکیلوں نے دلائل نہیں دیئے کیونکہ عدلیہ نے وکیلوں میں ہمت ہی نہیں چھوڑی، میں کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر دلائل دے سکتا ہوں مگر وہ مجھے وہاں ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں کریں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں قانون لا سکتی ہے کہ 184(3) میں لوگوں کو سنے بغیر آپ فیصلہ نہیں سنا سکتے، یا بغیر سنے سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے تو ایسے تمام فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہو۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب کیس میں جو ایشوز 184(3)کے دائرے کار میں لائے گئے اور فیصلہ دیا گیا وہ اس دائرے کار میں ہی نہیں آتے، بغیر کسی ٹرائل کے ایک پارلیمنٹیرین کو ساری زندگی کیلئے نا اہل کر دیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے سینکڑوں مقدمات میں لکھا ہے کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اور اس کیس میں سپریم کورٹ نے پورا ٹرائل کر کے ان کو نا اہل کر دیا، عدلیہ نے چیئرمین نیب کو ہدایت دی کہ ریفرنس فال کریں مگر قانون میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ نیب کو ہدایت دے سکے، اس کیس میں 184(3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سپریم کورٹ کو لائسنس کیسے مل گیا کہ وہ کسی بھی طرح 184(3)کا استعمال کر کے منتخب رکن کو نا اہل کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اثاثے چھپانے پر الیکشن کمیشن فیصلہ کر سکتا ہے نہ کہ عدالت خود ہی سارے فیصلے کرے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کاش کوئی بتا دے


مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…