آپ بڑی مدت سے سول ملٹری ڈیوائیڈ یہ تین لفظ سن رہے ہیں‘ مجھے ہمیشہ اس اصطلاح سے اختلاف رہا ہے‘اس ملک کے 20 کروڑ لوگ سویلین ہیں‘ان سویلین کا اپنی فوج اور فوج کا اپنے ان سویلین کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں‘ یہ دونوں ہر بحران میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘سویلین فوج کو سپورٹ کرتے ہیں اور فوج ہر کرائسس میں سویلین کی مدد کرتی ہے‘ اگر کوئی ڈیوائیڈ یا اختلاف ہو سکتا ہے تو وہ حکومت اور فوج کے درمیان ہو سکتا ہے
چنانچہ میری درخواست ہے آپ سول ملٹری ڈیوائیڈ کی بجائے گورنمنٹ ملٹری ڈیوائیڈ کی بات کریں یوں یہ ڈیوائیڈ‘ یہ مسئلہ چھوٹا ہو جائے گا‘ یہ پورے ملک کا ایشو نہیں رہے گا‘ اب سوال یہ ہے کیا حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف موجود ہے‘ میں اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دونوں فریق اختلاف یا ڈیوائیڈ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تاہم یہ حقیقت ہے دونوں کے درمیان ٹینشن ضرور موجود ہے اور دونوں کی باڈی لینگویج اس ٹیشن کا ثبوت ہے‘ یہ ٹینشن کہاں تک جائے گی ہم اسے سردست سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور آج کے ایک عجیب واقعے کی طرف آتے ہیں‘ آج نہ صرف گورنمنٹ گورنمنٹ کے ساتھ ناراض ہو گئی بلکہ وفاقی وزراء ریاض حسین پیرزادہ اور سکندر حیات بوسن سمیت 10 سے بارہ حکومتی ارکان جن میں شازیہ مبشر‘ بلال ورک‘ اطہر حسین گیلانی ‘ عبدالرحمن کانجو اور خسرو بختیار شامل ہیں اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کر گئے ۔ آج سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے بھی دکھی دل سے فرمایا یہ ایک نئی ٹینشن‘ ایک نئی ڈیوائیڈ سامنے آ رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے‘ یہ گرفت کہاں تک ڈھیلی ہو گی‘ ہم آج کے پروگرام میں یہ بھی ڈسکس کریں گے اور آج ایوان نے ایک بار پھر ختم نبوت کے حلف نامے کو نئی الیکٹورل ریفارمز کا حصہ بنا دیا‘ اپوزیشن اس شق کو نکالنے کے ذمہ دار کو سزا دینا چاہتی ہے‘
وہ ذمہ دار کون ہے اوراس کا نام ابھی تک سامنے کیوں نہیں آیا اور آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے خاموشی توڑ دی ۔اس پریس کانفرنس نے چند مزید سوال پیدا کر دیئے ہیں‘ ہم وہ سوال بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہے گا۔