اترپردیش(نیوزڈیسک)فصل برباد ہونے کی وجہ سے ہونے والے بھاری نقصان سے کسان کی بڑھتی مایوسی اسے خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے بھارت میں کاشتکار خودکشی کر رہے ہیں اور ان خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اب نئے علاقوں میں اس کا اثر بڑھ رہا ہے۔ تو آخر ایسا کیوں؟۔اس سوال کی تہہ تک جانے کی بجائے حکومتیں جو کچھ بھی کر رہی ہیں وہ مرض کا علاج نہیں ہے بلکہ اس کو ٹالنے کی محض ایک کوشش ہے۔گذشتہ دنوں جب ریاست اترپردیش کی حکومت نے بےموسم کی بارشوں کے سبب کم سے کم 35 کسانوں کی خودکشی کی بات تسلیم کی تو مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کئی اضلاع کا دورہ کیا۔اس سے متعلق تفتیشی ٹیمیں اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو سونپنے والی ہیں۔
سنہ 2014 کے ریکارڈز ابھی دستیاب نہیں لیکن 31 مارچ 2013 تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سنہ 1995 سےاب تک دو لاکھ 96 ہزار 434 کسانوں نےخودکشی کی ہے۔ حالانکہ ماہرین اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ یہ سرکاری اعداد و شمار بہت کم کر کے دکھائےگئے ہیں۔پہلے جہاں ملک میں کسانوں کی خود کشی کی خبریں ریاست مہاراشٹر کے ودربھ اور آندھرا پردیش کے تلنگانہ کے علاقے سے ہی آتی تھیں وہیں اب اس میں نئے علاقوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ان میں بندیل کھنڈ جیسے پسماندہ علاقے ہی نہیں بلکہ ملک کے ’سبز انقلاب‘ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والی ہریانہ، پنجاب اور مغربی اتر پردیش جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھئے:بھارت میں گائے کے بعد حکومت نے بکرے کے مذبح پر بھی پابندی کاعندیہ دیدیا
اس میں صنعتی اور زرعی ترقی کے اعداد و شمار میں ریکارڈ قائم کرنے والی ریاست گجرات کے علاقے بھی شامل ہیں۔راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کسان بھی اب خود کشی جیسے مہلک قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن آخر کیوں؟ سیدھا جواب یہ ہے کہ کاشتکاری کرنا اب خسارے کا سودا ہو گیا ہے۔