14 نومبر 2016 کو ننکانہ صاحب میں گرو نانک کا 547واں یومِ پیدائش منایا جا رہا ہے۔ یہ تقریبات اس شخصیت کی یاد میں منعقد کی جاتی ہیں جو بلا امتیازِ مذہب و رنگ و نسل ہر کسی کے لیے پیار کا پیغام لے کر آئی تھی اور ہر مذہب کے لوگ اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ وہ انسان جس کا فلسفہء خدا کسی بھی ایک مذہب کی مقرر کردہ حدوں میں سمانے سے انکار کرتا تھا۔ انہوں نےپنجاب کے لوگوں کو “ست شری اکال”
[یعنی خدائے واحد ہی سچ ہے] کا نعرہ دے کر ہندوستان کے ان حصوں تک بھی توحید کا پیغام پہنچایا، جہاں ابھی دوسرے صوفیاء اور بھگتوں کی آواز ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال، نے بانگِ درا کی ایک نظم میں انہیں یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے؛یہ حقیقت ہے کہ گرو نانک ہندو خاندان کے ایک فرد کالو رام بیدی کے گھر موضع تلونڈی (ننکانہ) میں پیدا ہوئے۔ لیکن ان کی ساری عمر ہندوئوں کی تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے خلاف گزری۔ گرونانک کو تعلیم دلوانے کا انتظام خود ان کے والد نے کیا اور انہیں ایک مسلمان معلم سید حسن کے ہاں بٹھایا۔ سید حسن کو ’’قطب الدین‘‘ اور ’’رکن الدین‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سید حسن نے نانک کو ہونہار دیکھ کر ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چنانچہ بچپن ہی سے گورو نانک اسلامی عقائد سے واقف ہوگئے۔ صوفیاء کرام کا کلام پڑھنے لگے اور اس کا پنجابی میں ترجمہ کرنے لگے۔(دیکھئے: پروفیسر جی این امجد، ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور، ۱۹۸۲ء ص ۸ تا ۱۳)گرو نانک اسلام کے فلسفہ توحید سے بے حد متاثر تھے اور بت پرستوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ’’گورو گرنتھ‘‘ میں اس حقیقت کا اظہار کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔
صاحب میرا ایکو ہے
ایکو ہے بھائی ایکو ہے
آپے مارے آپے چھوڑے
آپ لیو، دیئے
آپے دیکھے، وگے
آپ نذر کریئے
جو کچھ کرنا سو کر رہیا
اور نہ کرنا، جائی
جیسا در تے تیسو کہیے
سب تیری وڈیائی
(گرو گرنتھ صاحب اردو، ص ۵۳۲ بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۷۵۔۵۸)
ترجمہ: میرا مالک ایک ہے، ہاں ہاں بھائی وہ ایک ہے۔ وہی مارنے والا اور زندہ کرنے والا ہے۔ وہی دے کر خوش ہوتا، وہی جس پر چاہتاہے اپنے فضلوں کی بارش کردیتا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے بغیر اور کوئی بھی کر نہیں سکتا۔ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے ہم وہی بیان کرتے ہیں ہر چیز اس کی حمد بپا کررہی ہے۔
(گروگرنتھ صاحب اردو، ص ۵۳۲، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۵۷ ، ۵۸)
’’گوڑھی سکھمنی‘‘ میں واشگاف الفاظ میں عبادت کے لائق صرف اﷲ ہی کو تسلیم کرتے ہیں۔
ایکس کے گن گائو اننت تن من جاپ، ایک بھگونت
(گوڑی سکھمنی محلہ ۱، ص ۴۳۰، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۶۲۔۶۳)
حقیقی تعریف اور عبادت کے لائق، تن من سے اس کی عبادت کرنی چاہئے۔
ہمارے پیارے پیغمبر حضرت احمد مجبتیٰ محمد مصطفیﷺ کی رسالت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
پاک پڑھیوس کلمہ ہکس دا محمد نال زملائے
ہویا معشوق خدائے دا ہویا تل علائے
مہنہ تے کلمہ آکھ کے دوئی دروغ کمائے
آگے محمد مصطفیٰ سکے نہ تنہا چھیڑا ئے
(جنم ساکھی بھائی بالا، ص ۱۴۱ تا ۱۵۳، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۵۹)
چار آسمانی کتابوں پر اپنا ایمان اس طرح بیان کرتے ہیں
م مرشد من توں، من کتاباں چار
من خدائے رسول نوں، سچائی دربار
(جنم ساکھی بھائی بالا، ص ۲۲۲، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۶۷)
ان چار کتابوں کے نام بھی گرونانک کی زبانی سنئے:
دیکھ توریت، انجیل نوں، زبورے فرقان
ایہو چار کتب ہیں، پڑھ کے ویکھ قرآن
(جنم ساکھی بھائی بالا، ص ۱۵۲، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۶۸)
قرآن پاک کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:
تریہی حرف قرآن دے تہی سیپارے کیں
تس وچ بہت نصیحتاں سنکر کرویقین
(جنم ساکھی بھائی بالاوالی وڈی، ص ۴۴۰، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت ، ص ۶۷)
نماز پنجگانہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
پنج وقت نماز گزارے، پڑھے کتب قرآنا
نانک آکھے گورسد یہی، رہیو پینا کھانا
(گرو گرنتھ صاحب، سری راگ محلہ اردو، ص ۳۲، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۶۶۔۶۷)
نماز باجماعت کی تلقین ملاحظہ فرمایئے:
ج۔ جماعت جمع کر، پنج نماز گزار
باجھوں یاد خدائے دے، ہوسیں بہت خوار
(جنم ساکھی سری گرونانک جی، ص ۹۵، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت، ص ۴۹)
شراب بھنگ کے نشے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں
نانک آکھے رکن الدین لکھیا وچ کتاب
درگاہ اندر مارئیں جوپیندے بھنگ شراب
(جنم ساکھی بھائی بالا، ص ۲۵۷، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت ص ۵۶)
مشہور ہندو ڈاکٹر تارا چند کا اعتراف بھی ملاحظہ کرلیں:”یہ حقیقت واضح ہے کہ گرونانک صاحب حضرت بانی اسلامﷺ کی تعلیم اور اسلام سے بے حد متاثر تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو اس رنگ میں پورے طور پر رنگین کرلیا تھا”
(گرونانک جوت تے سروپ، ص ۱۹، بحوالہ گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت ص ۱۳)
(مولانا الحاج (کپتان) واحد بخش سیال چشتی صابری، روحانیت اسلام مطبوعہ، لاہور ، ص ۱۸۲)
آغاز میں گرونانک نواب دولت خان کے ہاں مال زکوٰۃ کے منشی مقرر ہوئے۔ تیس سال کی عمر میں نہ صرف ملازمت چھوڑ دی بلکہ گھربار کو بھی خیرباد کہہ دیا اور سیروسیاحت شروع کردی۔ ہندوستان، لنکا، ایران اور عرب کے سفر کئے اور چالیس سال تک ان ملکوں میں مقدس مقامات کی زیارت کی۔ حضرت بوعلی قلندر پانی پتی علیہ الرحمہ کے پاس ایک مدت تک رہے۔ ملتان کے مشہور بزرگ حضرت بہائو الدین ذکریا علیہ الرحمہ
کے مزار پر حاضری دی۔ حضرت غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ اور حضرت مراد علیہ الرحمہ کے مزارات پر چلہ کش ہوئے۔ شہر کے باہر جنوب مغرب میں ایک قبرستان سے ملحقہ چار دیواری میں آج بھی آپ کا چلہ مرجع خلائق ہے۔ اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کے مزار پر چالیس دن چلہ کیا۔ بمقام سرسہ حضرت شاہ عبدالشکور علیہ الرحمہ کی خانقاہ پر چالیس دن ٹھہرے۔ اس خلوت
خانہ کا نام چلہ بابا نانک ہے۔ حسن ابدال (ضلع اٹک) کی پہاڑی پر حضرت بابا ولی قندھاری علیہ الرحمہ کی بیٹھک پر حاضر ہوئے اور ٹھہرے۔ پاک پتن شریف میں حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ کے مزار پر خلوت نشین ہوئے۔ حضرت ابراہیم فرید چشتی علیہ الرحمہ جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ کی بارہویں پشت سے تھے، کی تعلیم سے ازحد متاثر تھے۔ گورو نانک کے کلام کے مجموعہ کا نام ’’گرنتھ
صاحب‘‘ ہے جو حضرت ابراہیم فرید چشتی علیہ الرحمہ کی شاعری سے لبریز ہے، بعض کا خیال ہے کہ یہ بھی حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کا کلام ہے جس کے ہر شعر کے آخر میں ’’فرید‘‘ تخلص عیاں ہے۔ گرونانک کا ورد ہمیشہ ’’ھو‘‘ رہا۔ آپ پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ آپ عالم استغراق میں چلے گئے۔ جس کی وجہ سے نماز روزے کی پابندی نہ کرسکے اور نہ ہی آپ کو حجامت بنوانے کا ہوش رہا۔ چنانچہ آپ کے
پیروکاروں نے بھی نماز روزہ کی پابندی کو ضروری نہ سمجھا اور حجامت کو بھی بالکل ترک کردیا۔ چنانچہ یہاں سے ہندوئوں کے الگ تھلگ ایک نئے فرقے ’’سکھوں‘‘ کی بنیاد پڑگئی۔ تفصیل کے لئے درج ذیل ماخذ دیکھئے۔
(ا) مولانا الحاج (کپتان) واحد بخش سیال چشتی صابری: روحانیت اسلام مطبوعہ لاہور)
(ب) پروفیسر منظور الحق صدیقی: تاریخ حسن ابدال مطبوعہ لاہور
(ج) پیر محمد اطہر القادری: الجواہرات مطبوعہ لاہور)
(د) پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور
سکھ حضرات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ گرونانک حج بیت اﷲ کے لئے مکہ معظمہ بھی گئے تھے بعد ازاں بغداد شریف حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی حاضری دی۔ بغداد شریف سے آپ کو ایک چغہ (چولہ) ملا تھا جس پر کلمہ طیبہ قرآنی آیات، سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص، سورہ نصر، آیت الکرسی اور اسماء الحسنیٰ درج ہیں۔ یہ چولہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں آج بھی موجود ہے۔
(پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور: ۲۵)نوٹ: اس کتاب کے سرورق پر گرونانک کے اس چولے (چغد) کی تصویر موجود ہے۔ جو آپ کو بغداد شریف سے ملا تھا اور جس پر قرآنی آیات درج ہیں۔ڈیرہ بابا نانک کے متولی سردار بلونت سنگھ نے گرونانک کی پانچ سویں برسی پر ۲۳ نومبر ۱۹۳۹ء کو اپنی ایک گفتگو میں یہ اعتراف کیا کہ اس چولہ پر سوائے عربی کے کوئی حروف نہیں ہیں۔
(پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور، ص ۳۷)گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں دریائے راوی کے کنارے کرتا رپور کا ایک قصبہ آباد کیا (جو آج کل تحصیل شکر گڑھ میں دربار صاحب کے نام سے مشہور ہے) اور اپنے گھر کے متصل ایک مسجد تعمیر کروائی اور اس میں نماز پڑھانے کے لئے ایک امام بھی مقرر کیا تھا۔(پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ
مت مطبوعہ لاہور ص ۱۶)گرونانک کے دو ساتھی جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہے تھے، وہ بھی مسلمان تھے۔ اکھٹے کھاتے پیتے اور رہتے تھے۔ ان میں کوئی امتیاز نہ تھا، یہ اسی وقت ممکن ہے جب مذہبی، نظریاتی اور فکری طور پر ہم آہنگی ہو(پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور ص ۲۳)حسن ابدال میں ’’پنجہ صاحب‘‘ کی کہانی جو مشہور ہے اس کی کوئی اصل اور حقیقت نہیں کیونکہ
حضرت بابا حسن ابدال المعروف بابا ولی قندھاری علیہ الرحمہ اور گرونانک ہم عصر نہ تھے۔ بلکہ بابا ولی قندھاری کی وفات ۱۴۱۷ء اور ۱۴۴۷ء کے درمیان ہوئی اور قندھار ’’افغانستان‘‘ میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ جبکہ گرونانک کی پیدائش ۱۴۶۹ء میں ہوئی تھی۔(تفصیل کے لئے دیکھئے : تاریخ حسن ابدال: پروفیسر منظور الحق صدیقی مطبوعہ لاہور ۱۹۷۷ء)المختصر گرونانک اسلامی عبادات نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور کلمہ
طیبہ واذان کی حقانیت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی واحدنیت اور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی رسالت پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ نے گرونانک کے پیغام توحید کی کیفیت کو یوں واضح کیا ہے۔
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہندکو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
(ڈاکٹر محمد اقبال: کلیات اقبال مطبوعہ لاہور ص ۲۸۶)
افسوس کہ سکھ حضرات بناوٹی رسموں، شرکیہ افعال اور غلط فہمیوں میں پڑ کر اس ست مارگ یعنی صراط مستقیم سے بہت دور جاپڑے ہیں۔ جس کی طرف گرونانک نے رہنمائی کی تھی اور جس پر آپ کی تعلیمات شاہد عدل و ناطق ہیں۔ یہ حقیقت بھی نہایت دلچسپ اور ایمان افروز ہے کہ گرونانک نے ایک کلیہ کے تحت حروف ابجد سے یہ ثابت کیا کہ کائنات کی ہر چیز حضرت محمدﷺ کے نور سے منور ہے۔ اس حقیقت کو گرونانک نے یوں ثابت کیا ہے۔
نام لیو جس اکھردا
اس نوں کریو چوگنا
دو ہور ملا کے پنج گنا
کاٹو بیس کٹا
باقی بچے سو نو گن کر
دو ہور ملا
نانکا ہر اس اکھر وچوں
نام محمد آیا(پروفیسر جی این امجد ایم اے: گرونانک جی اور تاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور ص ۴۱)ان اشعار کا عام فہم مطلب ملاحظہ فرمائیں۔کوئی نام لو، اس کے حروف کی تعداد نکالو، پھر اس تعداد کو چار سے ضرب دو، اس میں دو جمع کرو، جمع شدہ رقم کو پانچ سے ضرب دو، اب حاصل ضرب کو بیس سے تقسیم کردو جو باقی بچے اسے نو سے ضرب دو اور حاصل ضرب میں دو جمع کرو، جواب ہمیشہ بانوے آئے گا۔ جو
محمدﷺ کے اعداد ہیں۔الغرض کسی نام کے بھی حروف گن کر اس فارمولہ کو عمل میں لایا جائے تو یقینا آخر میں اعداد (92) ہی آئیں گے اور حضرت محمدﷺ کے اعداد 92 ہی ہیں۔بابا گرونانک کی وفات قصبہ دربار صاحب کرتا رپور تحصیل شکرگڑھ میں ہوئی تھی۔ ان ایام میں ہندوستان پر شیرشاہ سوری کی حکومت تھی۔ شہنشاہ بابر وفات پاچکے تھے۔ ان دنوں سکھ فرقہ اپنی موجودہ ہیت میں کہیں نہیں تھا۔ بابا گرونانک کی
وفات کے موقع پر کرتا رپور کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں سخت نزاع پیدا ہوا۔ ہندو اس بات کے دعویدار تھے کہ بابا ہندو تھے۔ اس لئے ان کی ارتھی کو نذر آتش کیا جائے گا۔ مسلمان اس بات کے دعویدار تھے کہ بابا جی مسلمان ہیں۔ انہیں کئی بار نماز ادا کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس کے چشم دید گواہ بھی موجود ہیں۔ لہذا ہم انہیں باقاعدہ نماز جنازہ پڑھ کر دفن کریں گے۔ قریب تھا کہ بابا جی کی تدفین کے مسئلہ پر ہندو مسلم فساد برپا ہوجاتا
اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جاتی کہ تحصیلدار پرگنہ شکرگڑھ نے موقع پر پہنچ کر بیچ بچائو کروادیا۔ تحصیل دار نے علاقے کے مسلمانوں کی ایک خفیہ میٹنگ بلائی اور کہا کہ تم لوگ آدھی رات کے وقت بابا جی کی میت کو چپکے سے اڑالو اور پندرہ بیس چیدہ چیدہ مسلمان بابا جی کی نماز جنازہ پڑھ کر انہیں خاموشی سے دفن کردیں۔ تعلقہ دار یعنی تحصیلدار نے تجویز پیش کی کہ صبح کے وقت یہ معطر ریشمی چادر چارپائی پر ڈال
دیں اور شور مچادیں کہ بابا جی کی میت کو پرماتما نے آکاش پر بلالیا ہے اور یہ معطر چادر بھیج دی ہے۔ اس چادر کو دو ٹکڑے کرکے ہندو اور مسلمان آپس میں بانٹ لیں۔ مسلمان چادر کو دفن کردیں اور ہندو اسے نذر آتش کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تعلقہ دار پرگنہ شکر گڑھ کی یہ اسکیم کامیاب رہی۔ ہندوئوں کو علم نہ ہوسکا کہ بابا گرونانک دفنا دیئے گئے ہیں۔ (واﷲ اعلم و رسولہ)(تفصیل کے لئے دیکھئے : حیات کشفی: سید بشیر احمد سعدی سنگروری، مطبوعہ لاہور ص ۵۲۰)