پہلا اصول: زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال لو۔دوسرا اصول:دنیا میں کسی کو تمہاری خود اعتمادی سے کوئی مثبت لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی سے توقع نہ رکھو کہ وہ تمہیں اعتماد دے گا۔ یہ تمہارا اپنا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ تم میں خود اعتمادی ذرا سی بھی پیدا ہوئی ہو، دنیا تم سے توقع کرے گی کہ تم ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرو۔تیسرا اصول:ہائی سکول سے نکلتے ہی تم ہر سال چالیس ہزار ڈالر نہیں کمانے لگو گے۔
اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اس میں بہت وقت لگے گا۔ چوتھا اصول:اگر تمہیں شکایت ہے کہ تمہارے ہائی سکول کے ٹیچر بہت سخت ہیں تو انتظار کرو کہ کب جاب ملے، تمہیں اندازہ ہو گا کہ باس کیا بلا ہوتی ہے؟ ٹیچر کا تو پھر بھی ٹنیور ختم ہو جاتا ہے، باس تو زندگی بھر باس ہی رہتا ہے۔ شکایت کرنا بند کرو۔پانچواں اصول: اگر تمہیں بیچ میں گزارہ کرنے کے لیے برگر بھی تلنے پڑ جائیں تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اس طرح برگر کے سٹال لگانے کو اچھا موقع قرار دیتے تھے،پیسے کمانے کا۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ دنیا کے لیے وقت ضائع مت کرو۔چھٹا اصول: اگر تم ناکام ہو جاؤ تو خبر دار اپنے والدین کو کسی طرح سے قصور وار مت ٹھہراؤ۔ ہر بات کو اپنی غلطی سمجھو اور اپنی اصلاح کرنا شروع کرو۔ خبردار جو اپنی ناکامی پر آنسو بہائے، اپنی غلطیوں سے سیکھو، اور آگے بڑھ جاؤ۔ ساتواں اصول: اپنے والدین کو اتنا بورنگ سمجھتے ہو، جانتے ہو وہ تمہارے پیدا ہونے سے پہلے بہت دلچسپ لوگ تھے۔ جب سے تم پیدا ہوئے انہیں بل ادا کرنے پڑے، تمہارے کپڑے دھونے پڑے اور یہ سننا پڑا کہ تم کتنے کول ہو، اس لیے وہ آج اتنے بورنگ ہیں اس لیے ان کے بارے میں ایک کڑوا لفظ بھی منہ سے نکالنے سے پہلے سوچو کہ اپنی الماری صاف کی ہے کہ نہیں؟
آٹھواں اصول:امریکہ کے بہت سے سکولوں نے بچوں کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ ایک سوال کا دس بار جواب دے سکتے ہیں جب تک کہ وہ درست جواب پر نہ پہنچ جائیں۔بیٹا جی اصل زندگی آپ کو ایک موقع بھی مشکل سے دے گی کہ آپ جواب دیں تو صحیح جواب دینے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں ہوتی۔نواں اصول:حقیقی زندگی میں کوئی سیمیسٹرز نہیں ہوتے۔ آپ کو چھٹی کبھی نہیں ملے گی۔
مطلب کام کام۔ اور اپنی ہوبیز کے لیے وقت نکالنا آپ کا مسئلہ ہے آپ کے باس کا نہیں۔دسواں اصول: جو کچھ تم ٹی وی پر دیکھتے ہو اس کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی وڈیو گیمز تمہیں کہیں پہنچا سکتی ہیں۔ اصل زندگی میں کافی شاپ سے اٹھنا پڑتا ہے اور آفس جانا پڑتا ہے۔:گیارہواں اصولکے آفس سے اپنی روٹی کماؤ گے۔nerd کے ساتھ اچھا سلوک کرو میری
بات یاد رکھنا تم انہی میں سے کسی nerdیہ انیس کروڑ نوے لاکھ ڈالر کا چیک تھا‘ چیک میز پر پڑا تھا‘ اس نے چیک اٹھایا‘ غور سے دیکھا‘ مسکرایا‘ چوما اور دوبارہ میز پر رکھ دیا‘ یہ چیک محض چیک نہیں تھا‘ یہ بہت بڑا اعزاز تھا‘ کاغذ کے اس ٹکڑے نے اسے چند منٹوں میں پوری دنیا میں مشہور کر دیا تھا‘ وہ ایک ہی جست میں گم نامی کے اندھیرے سے شہرت کی چکا چوند میں پہنچ گیا‘
وہ دنیا بھر کے میڈیا کی بریکنگ نیوز بن گیا‘ وہ کاغذ کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا چیف ایگزیکٹو آفیسر بن چکا تھا اور یہ تامل ناڈو کے شہر مدورائی کے اس غریب بچے کےلئے بہت بڑا اعزاز تھا جس نے غربت میں آنکھ کھولی‘ والد رگوناتھ پچائی الیکٹریکل انجینئر تھا لیکن خاندان کی آمدنی بہت محدود تھی‘ گھر دو کمروں کا فلیٹ تھا‘
اس فلیٹ میں اس کا ٹھکانہ ڈرائنگ روم کا فرش تھا‘ وہ فرش پر چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتا تھا‘ وہ پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تھا تو وہ سرہانے سے ٹیک لگا کر فرش پر ہی سو جاتا تھا‘ ماں کے ساتھ مارکیٹ سے سودا لانا‘ گلی کے نلکے سے پانی بھرنا‘ تار سے سوکھے کپڑے اتارنا اور گلی میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو بھگانا بھی اس کی ذمہ داری تھی‘ گھر کی مرغیوں اور ان کے انڈوں کو دشمن کی نظروں سے بچانا بھی اس کی ڈیوٹی تھی
اور شہر بھر میں کون سی چیز کس جگہ سے سستی ملتی ہے‘ یہ تلاش بھی اس کا فرض تھا اور باپ اور ماں دونوں کی جھڑکیاں کھانا بھی اس کی ذمہ داری تھی‘ وہ بارہ سال کا تھا جب ان کے گھر ٹیلی فون لگا‘ اس فون نے اس کا کام بڑھا دیا‘ وہ فلیٹس کے اس پورے بلاک کا پیغام بر بن گیا‘ لوگ اس کے گھر فون کر کے بلاک کے دوسرے فلیٹس کےلئے پیغام چھوڑتے تھے
اور وہ یہ پیغام پہنچانے کےلئے اٹھ کر دوڑ پڑتا تھا‘ وہ جوانی تک ٹیلی ویژن اور گاڑی کی نعمت سے بھی محروم رہا‘ اس کا والد پوری زندگی کار نہیں خرید سکا لیکن آج وہ نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن گوگل کا سی ای او تھا بلکہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا ملازم بھی تھا‘ اس کی سالانہ تنخواہ 20 کروڑ ڈالر طے ہو چکی تھی۔دنیا کی سب سے بڑی تنخواہ کا پہلا چیک اس کے سامنے پڑا تھا
اور تامل ناڈو کا سندر راج پچائی کبھی اس چیک کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے اس بچپن کو یاد کرتا تھا جس میں وہ سال سال بھر دوسرے جوتے‘ تیسری شرٹ اور چوتھے پین کےلئے ترستا رہتا تھا‘ وہ بچپن‘ بچپن نہیں تھا‘ وہ محرومی کی ایک سیاہ داستان تھی‘ پچائی کو آج بھی یاد تھا جب سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی نے اسے ہوائی ٹکٹ بھجوایا تو اس کا والد ٹکٹ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ ٹکٹ اس کے والد کی سالانہ آمدنی سے بھی مہنگا تھا‘
اسے آج تک یہ بھی یاد تھا وہ کورس کی کتابیں مانگ کر پڑھتا تھا اور اپنی اسائنمنٹس ردی کے کاغذوں پر مکمل کرتا تھا‘ وہ بسوں کے ساتھ لٹک کر سفر کرتا تھا اور اسے صرف مذہبی تہواروں پر مٹھائی نصیب ہوتی تھی‘ وہ کبھی چیک کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے اس وقت کو یاد کرتا تھا جب اس نے گھسٹ گھسٹ کر چنائے سے بارہویں جماعت پاس کی‘ وہ اس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی خراگپور چلا گیا‘
اس نے وہاں ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر میٹالرجیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی‘ پوزیشن اچھی تھی چنانچہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی یونیورسٹی سٹینڈفورڈ نے اسے وظیفہ دے دیا‘ وہ امریکا چلا گیا‘ اس نے سٹینڈفورڈ یونیورسٹی سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں ایم ایس کیا‘ وہ انجینئرنگ سے بڑا کام کرنا چاہتا تھا‘2004ءمیں جب گوگل میں نوکریاں نکلیں تو اس نے اپلائی کر دیا‘
گوگل نے اسے پراجیکٹ مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت دے دی‘ یہ ملازمت اس کےلئے نعمت ثابت ہوئی‘ سندر راجن پچائی اس یونٹ کا حصہ تھا جس نے ”گوگل کروم“ کا منصوبہ شروع کیا‘ یہ منصوبہ 2008ءمیں مکمل ہوا اور اس کے ساتھ ہی پچائی گوگل اور امریکا دونوں میں مشہور ہو گیا‘ اس کا دماغ ذرخیز تھا چنانچہ وہ گوگل کےلئے نئے نئے منصوبے بناتا رہا‘
گوگل کا ویب براﺅزر ہو‘ اینڈروئڈ ہو یا پھر فائرفاکس‘ گوگل ٹول بار‘ ڈیسک ٹاپ سرچ اور گوگل گیئرز یہ تمام پراجیکٹ سندر راجن پچائی نے مکمل کئے‘ ان منصوبوں سے گوگل کی آمدنی میں اضافہ ہوا‘ گوگل اس وقت دنیا کی امیر ترین کمپنی ہے‘ اس کی مالیت 554 ارب ڈالر ہو چکی ہے جبکہ اس کی سالانہ آمدنی 74 بلین ڈالر ہے‘ پاکستان کے کل غیرملکی قرضے 70 بلین ڈالر ہیں‘
گویا گوگل ایک سال میں دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے کل قرضوں سے زیادہ رقم کماتا ہے‘ یہ کمپنی سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے دو طالب علموں لیری پیج اور سرجے برن نے 1996ءمیں شروع کی‘ یہ دونوں اس وقت پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے‘ گوگل کا مقصد انٹرنیٹ پر موجود مواد کو درجوں میں تقسیم کرنا اور اسے لوگوں کےلئے آسان بنانا تھا‘ گوگل 2000ءتک دنیا کا معتبر ترین سرچ انجن بن گیا‘
یہ کمپنی دنیا بھر سے نیا ٹیلنٹ تلاش کرتی رہتی ہے‘ سندر راجن پچائی بھی اس کی دریافت تھا‘ یہ نوجوان 1972ءمیں تامل ناڈو میں پیدا ہوا‘ یہ 1993ءمیں سٹینڈفورڈ یونیورسٹی پہنچا‘ 1995-96ءمیں ایم ایس اور 2002ءمیں ایم بی اے کیا‘ یہ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا اور گوگل نے اسے یہ بہت کچھ کرنے کا موقع دے دیا‘ یہ اپنے دلچسپ آئیڈیاز کے ذریعے بہت جلد کمپنی میں اپنی جگہ بنا گیا‘
یہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے 10 اگست 2015ءکو گوگل کا سی ای او اور لیری پیج کا نائب بن گیا‘ کمپنی نے اسے شیئر بھی دے دیئے‘ یہ اس وقت 60 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کے شیئرز کا مالک بھی ہے۔گوگل نے پچائی کو فروری 2016ءکے دوسرے ہفتے 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تنخواہ کا چیک دیا‘ پچائی یہ چیک وصول کرتے ہی دنیا کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ”سی ای او“ بن گیا‘
ہم اگر انہیں پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو یہ دوسو کروڑ روپے بنیں گے گویا تامل ناڈو کا 43 برس کا ایک غریب جوان سالانہ دو سو کروڑ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور غریب بھی ایسا جس نے 18 سال کی عمر تک فرش پر سو کر اور فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور جو 12 سال کی عمر تک ٹیلی فون اور امریکا آنے تک ٹیلی ویژن اور گاڑی سے محروم تھا اور جس کا پورا بچپن دوسرے جوتے‘ تیسری شرٹ اور چوتھے
پین کو ترستے گزرا اور جو آج بھی ہندی لہجے میں انگریزی بولتا ہے اور اپنے گندمی رنگ کی وجہ سے دور سے پہچانا جاتا ہے اور جو آج بھی سوپ پیتے وقت اپنی شرٹ خراب کر بیٹھتا ہے اور جو جوتے پالش کرنا بھول جاتا ہے اور جس کے والدین آج بھی اس کو تو کہہ کر بلاتے ہیں‘ یہ سندر راجن پچائی‘ رگوناتھ پچائی کا یہ بیٹا کبھی 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے اس چیک کو دیکھتا ہے‘
یہ کبھی مبارک باد کی لاکھوں ای میلز کو دیکھتا ہے اور پھر ان لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کی طرف دیکھتا ہے جو آج بھی امریکا میں سوا سات ڈالر فی گھنٹہ کماتے ہیں اور جن کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے امریکی حکومت نے کم ترین اجرت دس ڈالر فی گھنٹہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جس میں سان فرانسسکو نے اعلان کیا ہم 2018ءتک کم ترین اجرت 15 ڈالر تک بڑھا کر پورے امریکا سے آگے نکل جائیں گے
اور جس میں بھارت کے 45 کروڑ نوجوان آج بھی ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ‘ دو کمرے کے فلیٹ‘ ایک ماروتی گاڑی اور ایک سندر بیوی کے خواب دیکھتے ہیں اور جس کے ہمسائے میں پی آئی اے کے ملازمین اور خیبر پختونخواہ کے پیرا میڈکس نجکاری کے خلاف ہڑتالیں کر رہے ہیں اور جس میں نوجوان سرکاری ملازمتوں کےلئے دھکے کھا رہے ہیں اور جس میں لوگ دس ہزار روپے کے بدلے پوری زندگی غلامی کرتے ہیں اور جس میں لوگ آج بھی کام کرنے کی بجائے گھر بیچ کر رقم ڈبل شاہ کے حوالے کر دیتے ہیں
اور جس میں لوگ آج بھی دس دس لاکھ روپے دے کر ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بارڈر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں‘یہ سندر راجن پچائی 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے چیک کو دیکھتا ہے اور پھر ان لاکھوں لوگوں کی حماقت پر قہقہے لگاتا ہے جو سوا سات ڈالر فی گھنٹے کی اجرت کو دس ڈالر اور پھر 15 ڈالر میں تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور پھر سر پر ہاتھ رکھ کر ان نوجوانوں کی بے وقوفی پر ماتم کرتا ہے جو کمپیوٹر‘ انٹر نیٹ اور گلوبل ویلج کی اس دنیا میں بے روزگار اور مواقع کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں
اور جو مہنگائی‘ بے روزگاری اور عدم توازن کا رونا روتے رہتے ہیں‘ پچائی کبھی اس چیک کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی بھارت سے لے کر روانڈا تک پھیلی تیسری دنیا کے ماتم کرتے ان لوگوں کی طرف جو اپنی جلد‘ اپنے علاقے‘ اپنی زبان اور اپنی حکومتوں کو اپنی محرومی‘ اپنی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور کبھی ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کرنے کی بجائے خوشحالی کےلئے مندروں‘ ٹمپلز‘ گوردواروں‘ جماعت خانوں‘ کلیساﺅں اور مسجدوں میں ماتھے رگڑتے ہیں
اور یہ کبھی ان لوگوں کو دیکھتا ہے جو وقت کے گھڑیال کو بھلا کر قسمت کی گھنٹی بجنے کا انتظار کر رہے ہیں‘ یہ شخص‘ یہ سندر راجن پچائی ان سب لوگوں کےلئے پیغام ہے اگر آپ آج گوگل‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ واٹس ایپ‘ وائبر اور انسٹا گرام کے دور میں بھی غریب ہیں‘ آپ اگر آج جب دنیا کی 40 فیصد دولت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جا چھپی ہے اور آپ اگر آج جب پوری عالمی کمپنی‘ ملٹی نیشنل فرم اور انٹرنیشنل برانڈ بنانے کےلئے ایک کمپیوٹر‘ لیب ٹاپ یا موبائل فون کافی ہے
لیکن آپ اس دور میں بھی غریب‘ محروم اور دکھی ہیں تو پھر آپ اس دکھ‘ اس محرومی اور اس غربت کو ڈیزرو کرتے ہیں اور آپ کو دنیا کی کوئی طاقت اس غربت‘ اس محرومی اور اس دکھ سے نہیں نکال سکتی‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا میں اتنا سنہرا دور پہلے کبھی آیا اور نہ ہی آئے گا‘ یہ تاریخ کا وہ سنہرا ترین دور ہے جس میں تامل ناڈو کا 43 سال کا پچائی صرف بارہ برس میں 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سالانہ تنخواہ لے لیتا ہے‘
آپ اگر اس دور میں بھی غریب ہیں تو پھر آپ کبھی غربت سے نہیں نکل سکیں گے۔یہ شخص قہقہے لگا رہا ہے اور آپ سے کہہ رہا ہے‘ دنیا کو معجزاتی دور میں داخل ہوئے 40 سال ہو چکے ہیں لیکن آپ آج بھی سرہانے کے ساتھ ٹیک لگا کر چھت پھٹنے کا انتظار کر رہے ہیں لہٰذا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی بے وقوف نہیں۔
زیروپوائنٹ/ جاوید چودھری