بادشاہ نے اپنے دوسرے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ اورسمندر میں پھینک آؤ یہ لوگ اس بچے کوساتھ لے کر چلے ۔بیچ سمندر کے پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا تو پھر وہی دعا کی’’اے اللہ جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا ‘‘۔دعا کے ساتھ ہی موج اٹھی اور سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے ،صرف وہی بچہ باقی بچا ۔پھر وہ بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’میرے رب نے مجھے بچا لیا
اور اے بادشاہ تو چاہے تو کتنی تدبیر یں بھی کرلے تو مجھے ہلاک نہیں کر سکتاصرف ایک صورت ہے جس طرح میں کہوں اگر تواس طرح کرے تو میری جان نکل سکتی ہے۔اس بچے نے کہا کہ تمام لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کر واور پھر کھجور کے تنے پرمجھے سولی چڑھا اور میرے تیر کو میری کمان پر چڑھا اور ’’بسم اللہ رب ھذاالغلام‘‘(یعنی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے)پڑھ کر تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے گا اور میں مر جاؤں گا ۔بادشاہ نے یہی کیا۔تیر بچے کی کنپٹی میں لگا ۔اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا۔چاروں طرف سے یہ آوازیں بلند ہونے لگیں ،ہم اس بچے کے رب پر ایمان لے آئے۔یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بڑے گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم تو اس بچے کی ترکیب سمجھے نہیں دیکھئے اس کا اثر کیا پڑا۔سب لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے۔ہم نے تو اسے اس لئے قتل کیا تھا کہ کہیں اس کا مذہب پھیل نہ جائے لیکن جو ڈر تھا سامنے آہی گیااور سب مسلمان ہو گئے۔بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کی تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤں اور اس میں لکڑیاں بھر وں اور آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے چھوڑ دو اور جو نہ پھیرے اس کو ان خندقوں میں پھینک دوں۔
مسلمانوں نے صبر اور سہارے کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کیا اور اس میں کودنے لگے البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا بچہ تھا ،ذرائع جھجکی تو اس بچے کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہے تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو۔(ریاض الصالحین )