حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے تو دریا دجلہ کے کنارے حضرت حبیب رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہو گئی انھوں نے پوچھا کہاں کا قصد ہے ؟حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ نے کہا دریا پار جانا چاہتا ہوں اور کشتی کا منتظر ہوںحضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بغض اور حب دنیا کو قلب سے نکال کر مصائب کو غنیمت تصور کرو اور الله پر اعتماد کر کے پانی کے اوپر روانہ ہو جاؤ –
یہ کہتے ہوئے خود پانی پر چلتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچےیہ کیفیت دیکھ کر حضرت حسنبصری رحمتہ الله علیہ پر غشی طاری ہو گئی اور ہوش میں آنے کے بعد جب لوگوں نے غشی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا حبیب کو علم میں نے سمجھایا اور اس وقت وہ مجھ کو نصیحت کر کے خود پانی پر روانہ ہو گئے اور اسی دہشت سے مجھ پر غشی طاری ہو گئی کہ جب روز محشر پل صراط پر چلنے کا حکم دیا جائیگا اور اگر میں اس وقت بھی محروم رہ گیا تو کیا کیفیت ہوگی -حضرت فرید الدین عطار فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو یہ شک ہو کہ حضرت حبیب عجمی کا مقام حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ سے بلند تھا تو یہ اس کی غلطی ہے -کیونکہ الله تعالیٰ نے علم کو ہر شے پر فضیلت عطا فرمائی ہے اسی وجہ سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “قل رب زدنی علما “” اے نبی کہیں کہ اے میرے رب ! میرے علم میں زیادتی عطا کر – “جیسا کہ مشائخ کا قول ہے کہ طریقت میں چودہواں درجہ کرامت کا ہے اور اٹھارواں اسرار و رموز کاکیونکہ کرامت کا حصول عبادت سے منسلک ہے اور اسرار و رموز کا عقل و فکر سےجیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت ہر شے پر تھی لیکن اتباع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کرتے تھے اور خود صاحب کتاب نبی نہ ہونے کی وجہ سے