واسکوڈے گاما 1497ءمیں پرتگال سے نکلا اور ایک سال بعد کولکتہ پہنچ گیا جس کے ساتھ ہی پرتگالیوں نے انڈیا دریافت کر لیا اور ہندوستان پر عربی تاجروں کی اجارہ داری ختم ہو گئی‘ پرتگالی کولکتہ کے گرد ونواح پر قابض ہونے لگے‘ ان میں ایڈمرل افانسو بھی تھا‘ یہ 1510ءمیں گووا پر حملہ آور ہوا‘ مسلمان حکمران اسماعیل عادل شاہ کو شکست ہوئی‘ چھ ہزار مسلمان قتل ہوئے اور گووا بھی پرتگالیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
پرتگالیوں نے گووا میں حکومت قائم کی ‘عیسائی مشنری یہاں آنے لگے‘ گووا میں غربت تھی‘ مشنریوں نے لوگوں میں چاول تقسیم کرنا شروع کر دیئے‘ لوگ چاول لینے جاتے اور عیسائی ہو کر واپس آتے‘ مشنری کیتھولک تھے چنانچہ گووا کے لوگ بھی کیتھولک ہو گئے‘ یہ گوون کیتھولک کہلائے‘ چارلس نیپئر نے 1843ءمیں سندھ فتح کیا‘ گوون کیتھولک کی سب سے بڑی کمیونٹی اس وقت ممبئی میں آباد تھی‘ انگریزوں کو کراچی میں اچھے‘ پڑھے لکھے اور امن پسند ملازمین کی ضرورت تھی‘ گوون کیتھولک اس کرائی ٹیریا پر پورے اترتے تھے‘ انگریزوں نے انہیں دھڑا دھڑ بھرتی کیا اور کراچی بھیجنا شروع کر دیا‘ یہ لوگ کراچی آئے‘ اپنی بستیاں‘ چرچ‘ سکول‘ ہسپتال اور کلب بنائے اور یہاں آباد ہوتے چلے گئے‘ گوون کیتھولکس نے کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا‘ یہ شہر کے میئر بھی رہے‘ ہندوستان تقسیم ہوا‘ یہ لوگ سمجھ دار تھے‘ یہ جان گئے بھارت ہندوﺅں اور پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ یہاں دوسری قومیتوں پر دائرہ حیات تنگ ہو جائے گا چنانچہ یہ لوگ ہندوستان سے نکلے اور کیتھولک عیسائی ملکوں میں آباد ہوتے چلے گئے تاہم ان میں سے کچھ خاندان اپنی زمین سے جڑے رہے‘ یہ لوگ بھارت اور پاکستان ہی میں رہے‘ کراچی میں اس وقت 15 ہزار گوون کیتھولک ہیں‘ سرل المیڈا پندرہ ہزار لوگوں کی اس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ پڑھے لکھے ہیں‘ آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی‘ وکالت کا پیشہ اختیار کیا‘ تسکین نہ ہوئی‘ وکالت چھوڑی اور صحافت میں آ گئے‘ یہ اس وقت ڈیلی ڈان سے وابستہ ہیں‘ سرل کا کالم انگریزی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالموں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ ٹویٹر پر بھی ایکٹو ہیں‘ ملک کے اہم ترین لوگ ٹویٹر پر ان کے فالوورز ہیں۔
یہ کھل کر لکھتے ہیں‘ انہوں نے 9 فروری 2014ءکو ”دی مین ہُو سولڈ پاکستان“ کے ٹائٹل سے عمران خان کے خلاف خوفناک کالم لکھا‘ سرل پہلے صحافی تھے جنہوں نے عمران خان کو طالبان خان لکھا اور یہ ٹائٹل بعد ازاں عمران خان کے ساتھ چپک گیا‘ شیریں مزاری نے اس کالم کوشرمناک بھی قرار دیا اور انہیں ہتک عزت کا نوٹس بھی بھجوایا‘ شیریں مزاری کا کہنا تھا ”سرل نے خود پاکستان کےلئے کیا کیا؟ اس نے خود ڈالرز کےلئے پاکستان بیچا“ سرل المیڈا نے 31 جولائی 2016ءکو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ”اے نیو چیف“ کے نام سے کالم لکھا‘ یہ کالم بھی بہت مشہور ہوا‘ سرل نے کالم میں راحیل شریف کی طرف سے ایکسٹینشن نہ لینے کے اعلان کو دانشمندی قرار دیا‘ سرل نے انکشاف کیا پاکستان مسلم لیگ ن آرمی چیف کے خلاف قیاس آرائیاں کرا رہی ہے‘ یہ ایکسٹینشن کے ایشو کو جان بوجھ کر سیاسی رنگ دے رہی ہے‘ یہ اکثر اوقات اس نوعیت کے خوفناک اور بولڈ کالم لکھتے رہتے ہیں لیکن ان کے 6 اکتوبر 2016ءکے کالم نے بھارت اور پاکستان میں بھونچال برپا کر دیا‘ یہ کالم‘ کالم نہیں تھا صحافتی ایٹم بم تھا اور اس کی تابکاری ابھی تک جاری ہے‘ وہ کالم کیا تھا؟ ہم اس طرف جانے سے پہلے ذرا سا بیک گراﺅنڈ میں جائیں گے‘ 3 اکتوبر 2016ءکو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی‘ یہ کانفرنس دو اہم ترین میٹنگز کا مجموعہ تھا‘ ایک میٹنگ سیاسی تھی جس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی جبکہ دوسری میٹنگ خفیہ اورملکی سیکورٹی سے متعلق تھی‘ یہ وزیراعظم کے آفس میں ہوئی اور اس میں وزیراعظم‘ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ تین سینئر وزراءاور ڈی جی آئی ایس آئی شریک تھے‘ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے شرکاءکو پاکستان کی سفارتی تنہائی پر پریذنٹیشن دی‘ یہ پریذنٹیشن انتہائی حساس تھی‘ حکومت نے اس کی روشنی میں اپنی سفارتی پالیسی کی شفٹنگ کا فیصلہ کیا‘ اس میٹنگ میں کیا ہوا؟ یہ اطلاعات سرل المیڈا تک پہنچ گئیں اور سرل نے چھ اکتوبر کو خوفناک انکشافات پر مبنی خوفناک خبر فائل کر دی‘ سرل کے مطابق ”سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے بتایا‘ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے‘ دنیا کے بڑے ملک پاکستانی موقف پر بے اعتنائی برت رہے ہیں‘ ہمارے امریکا سے تعلقات خراب ہیں‘ یہ تعلقات
مزید خراب ہوں گے کیونکہ امریکا چاہتا ہے ہم حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کریں‘ بھارت بھی پٹھان کوٹ حملے پر ٹھوس تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی چاہتا ہے‘ اعزاز چودھری نے انکشاف کیا‘ ہماری درخواست پر چین نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں مولانا مسعود اظہر پر پابندی کے خلاف تکنیکی اعتراض برقرار رکھا لیکن چینی حکام نے دبے دبے الفاظ میں ہم سے کہہ دیا ”یہ بار بار کیوں؟“ ڈی جی آئی ایس آئی نے سیکرٹری خارجہ سے پوچھا‘ ہمیں پاکستان کو سفارتی تنہائی سے بچانے کےلئے کیا کرنا ہوگا‘ اعزاز چودھری نے جواب دیا‘ عالمی برادری چاہتی ہے ہم جیش محمد‘ مسعود اظہر‘ حافظ سعید‘ لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کریں‘ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا‘ حکومت جسے ضروری سمجھتی ہے اسے گرفتار کر لے‘ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب بولے‘ سول حکام جب بھی ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پس پردہ ان کی رہائی کےلئے کوششیں شروع کر دیتی ہے‘ میاں شہباز شریف کی مداخلت پر ماحول ٹینس ہو گیا یہاں تک کہ وزیراعظم کو گفتگو میں دخل دینا پڑ گیا‘ طویل بحث کے بعد فیصلہ ہوا ڈی جی آئی ایس آئی قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ساتھ چاروں صوبوں میں جائیں گے‘ صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز سے ملیں گے اور انہیں یہ پیغام دیں گے‘ خفیہ ادارے شدت پسند گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہ کریں ‘ یہ فیصلہ بھی ہوا پٹھان کوٹ حملے پر تحقیقات کو نتیجے پر پہنچایا جائے گا اور ممبئی حملہ کیس راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دوبارہ چلایا جائے گا“۔
یہ خبر بھارتی میڈیا میں بریکنگ نیوز اور لیڈ سٹوری بن گئی‘ بھارت نے واویلا شروع کر دیا‘ اس واویلے نے پاکستانی حکومت اور پاک فوج دونوں کو پریشان کر دیا اور سول ملٹری دراڑ بڑھ گئی‘ فوجی حکام نے حکومت سے پوچھا‘ انتہائی حساس معلومات باہر کیسے آئیں اور یہ سرل تک کیسے پہنچیں؟ حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ چار لوگوں پر شک کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ پہلے صاحب وفاقی وزیر ہیں‘ خیال ہے ان کے منہ سے بات نکلی اور چلتی چلتی سرل المیڈا تک پہنچ گی‘ دوسرے صاحب وزیراعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی ہیں‘ یہ میڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں‘ یہ ماضی میں بھی ایسی خبریں اور تصاویر میڈیا کو جاری کرتے رہے جن کی وجہ سے سول ملٹری ریلیشن شپ خراب ہوئی لیکن وانی کا کہنا ہے‘ میں اس میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھا‘ میں زندگی میں کبھی سرل المیڈا سے ملا اور نہ ہی میرا کوئی ٹویٹر اکاﺅنٹ ہے‘ تیسرے صاحب سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری ہیں‘ یہ خبر ان کے زاویہ نظر کو زیادہ فوکس کر رہی ہے چنانچہ یہ بھی شک کے دائرے میں ہیں لیکن اعزاز چودھری منجھے ہوئے سفارت کار ہیں‘ یہ انجانے میں ”لیک“ نہیں کر سکتے اور شک کی زد میں آنے والے چوتھے صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر ہیں‘ یہ سابق صحافی اور اینکر پرسن ہیں اور یہ آج کل پنجاب میں ن لیگ کےلئے ٹیلی ویژن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ پالیسی شفٹ کی بھنک ان کے کان میں پڑ گئی اور یہ خبر ان سے سرل المیڈا تک پہنچ گی‘ شک کے دائرے میں ایک اور شخصیت بھی ہے لیکن ابھی تک اس شخصیت کا نام سامنے نہیں آیا‘ سرل کو اطلاع کس نے دی اور یہ خبر صرف انگریزی اخبار اور ڈان تک کیوں پہنچی؟ اس پر بھی تحقیقات جاری ہیں اور ٹویٹر اکاﺅنٹس‘ واٹس ایپ اور سکائپ کا تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے اور ان لوگوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے جو ماضی میں سرل المیڈا سے ملتے رہے ہیں‘ فوج اس خبر پر خاصی ناراض ہے‘ فوجی حکام نے آئندہ اعلیٰ سطحی
میٹنگز میں بھی محتاط رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ یہ تحقیقات اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ ماننا ہوگا‘ یہ خبر پاکستان کی ان چند نیوز سٹوریز میں شامل ہے جنہوں نے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی خبر پر سول اور ملٹری لیڈر شپ اکٹھی ہوئی اور حکومت نے ایف آئی آر اور شکایت کے بغیر کسی صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا‘ سرل اس وقت ای سی ایل پر ہیں‘ فوج ناراض ہے‘ حکومت پریشان ہے اور پوری صحافتی برادری سرل المیڈا کے ساتھ کھڑی ہے‘ حکومت کے فوج سے تعلقات پہلے ہی خراب ہیں اور اگر نزلہ سرل المیڈا پر گرا تو حکومت میڈیا جنگ بھی شروع ہو جائے گی یوں حکومت کو فوج اور میڈیا دونوں کی مخالفت برداشت کرنا پڑے گی اور ہماری تاریخ بتاتی ہے‘ یہ دونوں طاقتیں جب بھی کسی حکومت کے خلاف اکٹھی ہوئیں وہ حکومت 12 اکتوبر کا شکار ہو گئی لہٰذا مجھے خطرہ ہے سرل المیڈا کہیں اونٹ کےلئے آخری تنکا نہ بن جائیں‘ یہ کہیں وہ نہ کر دیں جو آج تک عمران خان نہیں کر سکا۔