ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہاہے؟ہالی ووڈ اداکارہ ایریکا ڈیرکسن زار و قطاررو پڑیں،بھارت کا بھانڈہ پھوڑ دیا

datetime 22  ستمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرینگر(این این آئی) ہالی ووڈ اداکارہ ایریکا ڈیرکسن نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور وہاں جاری انسانیت سوز کارروائیوں پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ قابض بھارتی فوجیوں کے مظام کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی بار رو پڑیں۔ ایریکا ڈیرکسن کا ویڈیو میں کہنا تھا کہ ٓپ کیسا محسوس کریں گی جب آپ کا شوہر ناشتہ لینے جائے اور کبھی واپس نہ آئے؟ آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کی بیٹی کی آنکھوں میں پیلٹ گن سے گولیاں ماری جائیں اور وہ ساری زندگی کیلئے نابینا ہوکر رہ جائے؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ کی گلی، آپ کے قصبے، آپ کے شہر پر قابض فوجی آپ کی بہن کی عصمت تار تار کردیں؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ قتل ہونے اور مارے جانے کا خطرہ مول لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکل سکتے ہوں؟’’(مقبوضہ) کشمیر میں اس وقت یہی سب کچھ ہورہا ہے!‘‘انہوں نے کہاکہ میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔ بھارتی فوج کرفیو لگا کر کشمیری عوام کو دہشت زدہ کرنے، ان کا قتل عام کرنے، خواتین کی عزتیں لوٹنے اور ان پر تشدد کرنے میں مصروف ہے جسے آج 70 دن سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ انہیں موت کا خطرہ مول لئے بغیر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ انٹرنیٹ بھی بند ہے، مواصلات محدود اور بھارتی فوجیوں کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘ایریکا ڈیرکسن کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے کشمیری اس کڑے وقت میں اپنے گھر والوں سے مل نہیں سکتے، یہ کشمیر میں انتہائی بھیانک وقت ہے۔ اب تک مرنے والوں کی تعداد 100 سے بڑھ چکی ہے اور 12,000 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں؛ یعنی ہر روز 150 سے زیادہ افراد زخمی ہورہے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے کشمیر کی تاریخ اور دوسرے معاملات کا اتنا علم نہیں جتنا آپ کو ہوسکتا ہے تاہم میں اتنا جانتی ہوں کہ یہ غلط ہے۔’’اگر آپ میری پرانی ویڈیوز دیکھیں تو ان میں آپ کو ایک کشمیری قالین دکھائی دیگا ٗ ماضی میں مجھے کشمیر جانے کا موقع ملا اور مجھے وہاں بہت مزا آیا ٗمجھے وہ لوگ، وہ خاندان آج تک یاد ہیں جن سے میں نے یہ کشمیری قالین خریدا تھا؛ وہ بہت خوشگوار لمحات تھے۔ وہ پورے کا پورا خاندان اب مرچکا ہے؛ وہ 13 کے 13 افراد مرچکے ہیں۔ اور ان سب کو بھارتی فوج نے قتل کیا ہے!‘‘’’یہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟ اسے کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ حالات پر قابو پانے کیلئے زیادہ تشدد کوئی حل نہیں، لوگوں کو زیادہ ہراساں کرنا کوئی حل نہیں اور زیادہ خوف پھیلانا بھی کوئی حل نہیں ٗ میں نہیں جانتی کہ مسئلے کا حل کیا ہے لیکن میں خاموش بھی نہیں بیٹھ سکتی جبکہ مجھے ہر طرف سے بار بار یہ سننے کو مل رہا ہو کہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔ لیکن میں اتنا خوب سمجھتی ہوں کہ یہ بہت ہی غلط ہے کہ بچوں کو قتل کیا جائے، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔‘‘’’کیا آپ بچوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘’’میں امریکا اور دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے علم میں لانا چاہتی ہوں کہ اس وقت کشمیر میں بہت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہورہی ہے۔ اور بھارتی فوج یہ سب کچھ کررہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ اور اس کے دوسرے معاملات بہت پیچیدہ ہیں لیکن اس سے یہ سب کچھ درست نہیں ہوجاتا۔‘‘’’میں نہیں جانتی کہ مسئلے کا حل کیا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ ان تمام حالات کی طرف سے ا?نکھیں بند کرکے میں زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘’’میں لوگوں کو بتادینا چاہتی ہوں، اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بہت خراب ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ کشمیریوں کی پکار سنی جائے۔ تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم سب مل کر دعا کرسکتے ہیں کہ کشمیر میں امن قائم ہوجائے۔ ہم ان بچوں کیلئے، ان خاندانوں اور ان نوجوانوں کیلئے دعا کرسکتے ہیں جو ہر روز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔‘‘’’مقبوضہ کشمیر میں مرنے والے زیادہ تر لوگ 18 سال سے کم عمر تھے۔ میں کسی سیاسی بحث میں پڑنا نہیں چاہتی؛ مجھ میں اتنی توانائی نہیں۔ میں تو صرف اس بارے میں آگاہی پھیلانا چاہتی ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں ہورہا اور کشمیریوں کا حق ہے کہ ان کے ساتھ بہترانسانی سلوک کیا جائے۔ کوئی بھی ایسے سلوک کا مستحق نہیں، کوئی بھی نہیں۔ اور اسے مزید تشدد سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو صرف خدا ہی میری مدد کرسکتا ہے۔ خدا لوگوں کے ذریعے کام کرتا ہے۔‘‘’’مجھے کشمیر سے محبت ہے؛ مجھے ان یادوں سے، اْس وقت سے محبت ہے جو میں نے وہاں گزارا ہے۔‘‘’’میری خواہش ہے کہ وہاں مفاہمت اور امن کا ایک نیا دور شروع ہو؛ اور کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ میری دعا بھی ہے اور درخواست بھی۔ کشمیر میں امن کیلئے میری دعائیں ہیں ٗمیں آپ سب کو پیار بھیجتی ہوں چاہے آپ کہیں بھی ہوں، آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو۔‘‘’’اگر آج آپ گھر سے باہر جاکر اپنے اور اپنے گھر والوں کیلئے کھانے پینے کی چیزیں خرید سکتے ہیں تو شکر ادا کیجئے؛ کیونکہ کشمیری لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہیں۔ میری درخواست ہے کہ میرا ساتھ دیجئے اور کشمیر میں امن کیلئے خدا سے دعا کیجئے، جسے بھی آپ خدا سمجھتے ہوں، اس سے دعا کیجئے جو ہم سب سے بہت عظیم ہے۔‘‘

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…