بدھ‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

35 سالہ معذور ترک نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا

datetime 19  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک) بہت سے پڑھے لکھے تندرست افراد کے لیے کتاب تو دور کی بات، دو سطریں بھی ڈھنگ سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے اس باہمت نوجوان کو داد دیجیے جس کا پورا جسم مفلوج ہے۔ مگر اس نے اپنی ناک سے پوری کتاب تحریر کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 35 سالہ مصطفی ارول دماغ کی بیماری (Cerebral Palsy) میں مبتلا ہے، جس کے باعث وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ اس مرض کا شکار ہونے سے پہلے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔ مگر اچانک اس کا بدن مفلوج ہوگیا۔ وہ کئی برس سے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ اس بیماری سے لڑتے ہوئے اسے اتنا تجربہ ہوا کہ اس نے سوچا کیوں نہ اچانک اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی رہنمائی کے لیے اپنے تجربات شیئر کیے جائیں۔ مگر کیسے؟ اگرچہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا، مگر اب تو ہاتھ پیر ہلانے سے وہ قاصر تھا۔

باہمت شخص نے اس معذوری کو اس نے اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ مصطفیٰ ارول کو اس کے والد نے ایک کمپیوٹر لاکر دیا، جس پر وہ اپنی ناک سے کمپوزنگ کرکے اپنے خیالات کو کتابی شکل دیتا رہا۔ چونکہ ناک سے کمپوز کرنا تندرست افراد کے لیے بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، مگر مصطفی ارول نے اپنے مفلوج وجود کے ساتھ بھی اس منصوبے کو عملی جامہ پہناکر دکھایا۔ وہ مسلسل سات برس تک ناک سے کمپوز کرکے کتاب لکھتا رہا۔ بالآخر وہ کتاب تیار ہوکر چھپ بھی گئی۔ ایک معذور شخص کی جانب سے ناک سے لکھی گئی یہ دنیا کی پہلی کتاب ہے۔ جس کا نام مصطفی ارول نے ’’وہ مجھے معذور سمجھتے ہیں‘‘ رکھا ہے۔

دماغی عارضے کا شکار مصطفیٰ ارول اچھی طرح بول بھی نہیں سکتا۔ جب ان کی یہ منفرد کتاب چھپی تو ترک خبر رساں ادارے اناضول نے اس سے ملاقات کی۔ مصطفیٰ ارول کا کہنا تھا کہ میں مزید کتابیں اور مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ مصطفی ترکی کے مغربی علاقے ایدن سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب کی چھپائی میں مقامی حکومت نے اسے تعاون کیا۔ مصطفی کا کہنا تھا کہ کتاب لکھنے میں مجھے زیادہ عرصہ اس لیے لگا کہ اس دوران میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ مصطفیٰ اردل نے ماس کمیونی کیشن اور اقتصادیات میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ اب وہ ترک ادب میں بھی ماسٹر کررہا ہے۔ مصطفیٰ کی والدہ خدیجہ کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب کے بارے میں صدر رجب طیب اردگان کو بھی ٹیلی فون کرکے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مصطفیٰ کا ہر سطح پر سرکاری تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مصطفی کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ گھر میں محبوس ہوکر نہ رہے۔ حکومت اس کے لیے کوئی مناسب روزگار کا اہتمام کرے۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…