ہفتہ‬‮ ، 19 جولائی‬‮ 2025 

35 سالہ معذور ترک نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا

datetime 19  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک) بہت سے پڑھے لکھے تندرست افراد کے لیے کتاب تو دور کی بات، دو سطریں بھی ڈھنگ سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے اس باہمت نوجوان کو داد دیجیے جس کا پورا جسم مفلوج ہے۔ مگر اس نے اپنی ناک سے پوری کتاب تحریر کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 35 سالہ مصطفی ارول دماغ کی بیماری (Cerebral Palsy) میں مبتلا ہے، جس کے باعث وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ اس مرض کا شکار ہونے سے پہلے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔ مگر اچانک اس کا بدن مفلوج ہوگیا۔ وہ کئی برس سے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ اس بیماری سے لڑتے ہوئے اسے اتنا تجربہ ہوا کہ اس نے سوچا کیوں نہ اچانک اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی رہنمائی کے لیے اپنے تجربات شیئر کیے جائیں۔ مگر کیسے؟ اگرچہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا، مگر اب تو ہاتھ پیر ہلانے سے وہ قاصر تھا۔

باہمت شخص نے اس معذوری کو اس نے اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ مصطفیٰ ارول کو اس کے والد نے ایک کمپیوٹر لاکر دیا، جس پر وہ اپنی ناک سے کمپوزنگ کرکے اپنے خیالات کو کتابی شکل دیتا رہا۔ چونکہ ناک سے کمپوز کرنا تندرست افراد کے لیے بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، مگر مصطفی ارول نے اپنے مفلوج وجود کے ساتھ بھی اس منصوبے کو عملی جامہ پہناکر دکھایا۔ وہ مسلسل سات برس تک ناک سے کمپوز کرکے کتاب لکھتا رہا۔ بالآخر وہ کتاب تیار ہوکر چھپ بھی گئی۔ ایک معذور شخص کی جانب سے ناک سے لکھی گئی یہ دنیا کی پہلی کتاب ہے۔ جس کا نام مصطفی ارول نے ’’وہ مجھے معذور سمجھتے ہیں‘‘ رکھا ہے۔

دماغی عارضے کا شکار مصطفیٰ ارول اچھی طرح بول بھی نہیں سکتا۔ جب ان کی یہ منفرد کتاب چھپی تو ترک خبر رساں ادارے اناضول نے اس سے ملاقات کی۔ مصطفیٰ ارول کا کہنا تھا کہ میں مزید کتابیں اور مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ مصطفی ترکی کے مغربی علاقے ایدن سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب کی چھپائی میں مقامی حکومت نے اسے تعاون کیا۔ مصطفی کا کہنا تھا کہ کتاب لکھنے میں مجھے زیادہ عرصہ اس لیے لگا کہ اس دوران میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ مصطفیٰ اردل نے ماس کمیونی کیشن اور اقتصادیات میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ اب وہ ترک ادب میں بھی ماسٹر کررہا ہے۔ مصطفیٰ کی والدہ خدیجہ کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب کے بارے میں صدر رجب طیب اردگان کو بھی ٹیلی فون کرکے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مصطفیٰ کا ہر سطح پر سرکاری تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مصطفی کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ گھر میں محبوس ہوکر نہ رہے۔ حکومت اس کے لیے کوئی مناسب روزگار کا اہتمام کرے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حقیقتیں(دوسرا حصہ)


کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…