بدھ‬‮ ، 17 ستمبر‬‮ 2025 

35 سالہ معذور ترک نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا

datetime 19  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک) بہت سے پڑھے لکھے تندرست افراد کے لیے کتاب تو دور کی بات، دو سطریں بھی ڈھنگ سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے اس باہمت نوجوان کو داد دیجیے جس کا پورا جسم مفلوج ہے۔ مگر اس نے اپنی ناک سے پوری کتاب تحریر کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 35 سالہ مصطفی ارول دماغ کی بیماری (Cerebral Palsy) میں مبتلا ہے، جس کے باعث وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ اس مرض کا شکار ہونے سے پہلے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔ مگر اچانک اس کا بدن مفلوج ہوگیا۔ وہ کئی برس سے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ اس بیماری سے لڑتے ہوئے اسے اتنا تجربہ ہوا کہ اس نے سوچا کیوں نہ اچانک اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی رہنمائی کے لیے اپنے تجربات شیئر کیے جائیں۔ مگر کیسے؟ اگرچہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا، مگر اب تو ہاتھ پیر ہلانے سے وہ قاصر تھا۔

باہمت شخص نے اس معذوری کو اس نے اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ مصطفیٰ ارول کو اس کے والد نے ایک کمپیوٹر لاکر دیا، جس پر وہ اپنی ناک سے کمپوزنگ کرکے اپنے خیالات کو کتابی شکل دیتا رہا۔ چونکہ ناک سے کمپوز کرنا تندرست افراد کے لیے بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، مگر مصطفی ارول نے اپنے مفلوج وجود کے ساتھ بھی اس منصوبے کو عملی جامہ پہناکر دکھایا۔ وہ مسلسل سات برس تک ناک سے کمپوز کرکے کتاب لکھتا رہا۔ بالآخر وہ کتاب تیار ہوکر چھپ بھی گئی۔ ایک معذور شخص کی جانب سے ناک سے لکھی گئی یہ دنیا کی پہلی کتاب ہے۔ جس کا نام مصطفی ارول نے ’’وہ مجھے معذور سمجھتے ہیں‘‘ رکھا ہے۔

دماغی عارضے کا شکار مصطفیٰ ارول اچھی طرح بول بھی نہیں سکتا۔ جب ان کی یہ منفرد کتاب چھپی تو ترک خبر رساں ادارے اناضول نے اس سے ملاقات کی۔ مصطفیٰ ارول کا کہنا تھا کہ میں مزید کتابیں اور مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ مصطفی ترکی کے مغربی علاقے ایدن سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب کی چھپائی میں مقامی حکومت نے اسے تعاون کیا۔ مصطفی کا کہنا تھا کہ کتاب لکھنے میں مجھے زیادہ عرصہ اس لیے لگا کہ اس دوران میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ مصطفیٰ اردل نے ماس کمیونی کیشن اور اقتصادیات میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ اب وہ ترک ادب میں بھی ماسٹر کررہا ہے۔ مصطفیٰ کی والدہ خدیجہ کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب کے بارے میں صدر رجب طیب اردگان کو بھی ٹیلی فون کرکے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مصطفیٰ کا ہر سطح پر سرکاری تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مصطفی کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ گھر میں محبوس ہوکر نہ رہے۔ حکومت اس کے لیے کوئی مناسب روزگار کا اہتمام کرے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…