لاہور (نیوز ڈیسک )محکمہ تعلیم کی سکول ایجوکیشن کی جانب ترجیحات کم، ضلعی سربراہوں ( ای ڈی اوز) کی بھی کمزور گرفت، لاہور سمیت پنجاب بھر میں گیارہ ہزار کے قریب سکولز یا تو ختم کر دئیے گئے یا پھر فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر انہیں دوسرے سکولوں میں مرج (ضم ) کر دیا گیا، جس کے باعث 20 لاکھ کے قریب بچوں کے ڈراپ آؤٹ کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے گزشتہ 5 سالوں میں پرائمری ایجوکیشن کی سطح پر معیار تعلیم اور اس میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا وزیر اعلیٰ پنجاب نے سخت نوٹس لے لیا ہے۔ ’’پاکستان‘‘ کو محکمہ تعلیم کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ محکمہ تعلیم کی سکولز ایجوکیشن کی جانب ترجیحات انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہیں اور اس میں ضلعی سربراہوں ( ای ڈی اوز) اور ی ای اوز نے بھی اپنے فرائض سے مبینہ طور پر چشم پوشی سے کام لے رکھا ہے جس کے باعث محکمہ تعلیم کی سکولز ایجوکیشن میں گرفت انتہائی کمزور ہو کر رہ گئی ہے، جس سے پرائمری ایجوکیشن کی سطح پر معیار تعلیم گر کر رہ گیا ہے اور اس میں صورتحال اس حد تک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں سکولوں کی تعداد میں ہر سال 1500 سے 2000 تک کمی واقع ہو رہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی 20 لاکھ کے قریب بچے سرکاری سکولوں سے باہر ہیں، یعنی ڈراپ آؤٹ کی شرح کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد جنوبی پنجاب کے اضلاع میں بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح بتائی گئی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر لاہور ڈویڑن اور تیسرے نمبر پر گوجرانوالہ ڈویڑن کے اضلاع کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لاہور سمیت صوبے بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ہر سال انرولمنٹ بڑھانے کی فرضی اور بوگس رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔