اسلام آباد (نیوزڈیسک) وزیراعظم نواز شریف آرمی چیف کے ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کرانے کے دلیرانہ سفارتی مشن پر آج ریاض روانہ ہو رہے ہیں۔ ان کا مشن دلیرانہ اس لئے ہے کہ اس سے پہلے روس، ترکی اور سلطنت اومان دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں جن کا جواب نہ آنے کی باعث ان ملکوں کے دارالحکومتوں میں اب جوش و خروش مفقود ہے۔ ان ملکوں کی پیشکش کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روس اس وقت ایران کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور ایران پراثر انداز ہونے کی استعداد رکھتا ہے۔ ترکی ایران کا پڑوسی ملک ہے تو دوسری جانب سعودی عرب سے حالیہ برسوں میں اس کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ سلطنت اومان خلیج فارس کے کنارے پر ایسی غیر جانبدار ریاست ہے جس کے ایران اور سعودی عرب دونوں سے بہترین تعلقات ہیں۔ پاکستان روایتی طور پر سعودی عرب کے بہت قریب رہا ہے لیکن مشرقی پڑوسی ہونے کے ناطے ایران سے تعلقات بھی کشیدگی سے پاک رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن جیسا اہم معاشی منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ پاکستان کی طرف سے مصالحت کی اس کوشش کی تفصیلات سے آگاہ ایک ذریعہ کے مطابق وزیر اعظم کا مشن دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا جب کہ مشن کو خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی صورت میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی مزید کوششوں کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان کی طرف سے ثالثی کی یہ کوشش ریاض اور تہران کی رضامندی کے بغیر نہیں۔ سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر انہیں پاکستان کی طرف سے ثالثی کی خواہش سے آگاہ کر دیا گیا تھا جبکہ تہران کو بھی سفارتی ذرائع سے بتایا گیا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت اور اختلافات کم کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین کے صدر ان ہی تاریخوں میں ایران اور سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں اور ایسے ہائی پروفائل دورہ کے موقع پر ایک دوسرے ملک کے سربراہ حکومت کی میزبانی کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق وزیر اعظم کا مشن اس اعتبار سے مشکل ہے کہ سعودی عرب مطالبہ کر رہا ہے کہ ایران اس کے مشرقی صوبہ قطیف، پڑوسی ملک یمن اور بحرین میں مداخلت سے باز رہے۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ ایران، یمن کو اس کا ویت نام بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب شام میں محاذ آراء ہیں۔ حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے سعودی عرب پر فرقہ واریت پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس دو طرفہ الزام تراشی کے باعث کسی بھی ملک کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کرانا بہرحال ضرور ایک مشکل مشن ہے۔