اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اپنے پہلے باقاعدہ انٹرویو میں یہ بات باور کرا چکے ہیں کہ مملکت کا طبل ِ جنگ بجانے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں بلکہ وہ امن کی خواہاں ہے۔
“دی اکنامسٹ” میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے اس سوالے کے جواب میں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کا کوئی امکان ہے؟ سعودی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ” ہم اس امر کی کسی طور توقع نہیں رکھتے ہیں، اور جو حالات کو اس جانب دھکیلے گا وہ اپنے پورے حواس میں نہیں ہو گا، کیوں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کا مطلب، خطے میں ایک بڑی آفت کا آغاز ہے اور یہ باقی دنیا پر بھی بھرپور انداز سے اثر انداز ہو گی، یقینا ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے”۔اسی حوالے سے آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ” کیا آپ ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں؟”…. شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ : “ہم ایسی امید نہیں کرتے”۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ سعودی ایران تعلقات، تہران اور مشہد میں سعودی سفارتی مشنوں پر عوامی ملیشیاو¿ں کے حملوں کے بعد، سنگین بحران کا شکار ہیں۔ مبصرین کے نزدیک شہزادہ محمد بن سلمان کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ سعودی عرب پوری طاقت رکھنے کے ساتھ امن کا خواہش مند ہے۔ اس بات کا واضح اندازہ “دی نیشنل انٹرسٹ” میگزین میں سعودی فوجی طاقت کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے، رپورٹ کا عنوان ہے ” سعودی عرب کے پاس 5 مہلک ہتھیاروں کی فہرست جن سے ایران کو خوف کھانا چاہیے”.رپورٹ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ریاض حکومت دنیا کا جدید ترین اسلحہ صرف مشکل حالات کے لیے ہی خریدتی ہے، جب اس کی اور عرب قومی سلامتی کو خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ ان ہتھیاروں میں اہم ترین یہ ہیں :
1- بوئنگ F-15 ایگل
سعودی عرب کے فضائی بیڑے میں 86 عدد F-15C/D (ایئر ٹو ایئر ورڑن) جنگی طیارے ہیں۔ ان کے علاوہ 70 کثیر المقاصد لڑاکا طیارے F-15S ماڈل کے بھی ہیں جو “اسٹرائک ایگل” کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ طیارہ حد درجہ جدید ہونے کی وجہ سے بنا کسی رکاوٹ کے ایران کے بہت اندر تک اہداف کو نشانہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق “اسٹرائک ایگلز” کو جلد ہی “F-15SA” ایڈوانس ماڈل میں اپ گریڈ کر دیا جائے گا۔ جس میں جدید “APG-63 (V) 3” ریڈار، جدید الیکٹرونک وارفیئر سسٹم اور دیگر جدید sensors مہیا کیے گئے ہیں۔ رائل سعودی ایئرفورس میں اس نوعیت کے 84 طیاروں کا اضافہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ایران فضائی طاقت کے عدم توازن کی تلافی کی کوشش میں چینی اور کوریائی ٹکنالوجی کے مقامی طور پر تیار کیے گئے میزائل نظام پر انحصار کر رہا ہے۔
2- یورو فائٹر “ٹائیفون”
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لڑاکا طیارہ “ٹائیفون” سعودی اسلحے میں دوسرا مہلک ترین ہتھیار ہے۔ سعودی عرب نے اس ماڈل کے 72 طیارے خرید لیے ہیں۔ یہ طیارہ “فضا سے فضا” اور “فضا سے زمین” دونوں نوعیت کے معرکوں میں بہترین کارکردگی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سعودی عرب کو کتنے ٹائیفون طیارے مل چکے ہیں، تاہم اندازہ ہے کہ معاہدے کی تعداد کے نصف سے زیادہ طیارے سعودی فضائیہ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ہونے والے اکثر عسکری معاہدوں کے برخلاف، اس بار زیادہ تر طیاروں کو سعودی عرب میں ہی assemble کیا جارہا ہے تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ لڑائی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں۔
3- بوئنگ AH-64D اپاچی لڑاکا ہیلی کاپٹر
سعودی فضائیہ کی طرح سعودی بری افواج بھی دنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم ترین ہتھیار بوئنگ “AH-64D” اپاچی ہیلی کاپٹر ہے۔ سعودی عرب کے پاس ان کی تعداد 82 ہے۔
بنیادی طور پر یہ اپاچی 70ءکی دہائی کے اواخر میں امریکی فوج کے لیے ڈیزئن کیا گیا تھا تاکہ سرد جنگ کے دوران وسطی یورپ میں سوویت یونین کے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکا جا سکے۔ امریکی فوج نے 2003 میں عراق جنگ کے دوران بھی اس کا استعمال کیا تھا تاہم اس کی کارکردگی زیادہ مو¿ثر نہیں رہی تھی۔ بعد ازاں اس کو داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھی کام میں لایا گیا۔ اگر اپاچی کا مناسب طور استعمال کیا جائے تو یہ دشمن کی بری افواج کو
نشانہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
4- M1A2 ابرامز ٹینک
سعودی بری افواج کو دنیا کے ایک طاقتور ترین ٹینک “M1A2S” ابرامز سے بھی لیس کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اس ماڈل کے 442 ٹینک ہیں۔ لڑائی میں مرکزی ٹینک ہونے کی وجہ سے سعودی فوج میں ان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔
سعودی اور امریکی ابرامز ٹینکوں میں فرق یہ ہے کہ مو¿خر الذکر افراغ شدہ (خشک) یورینیئم سے لیس ہوتے ہیں۔ سعوی ابرامز درحقیقت امریکی فوج کے زیر استعمال ” M1A2 SEP” سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ ٹینک اعلی درجے کے انفارمیشن اور نیٹ ورکنگ نظام کے حامل ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ ایران کے پاس موجود کسی بھی ٹینک سے زیادہ طاقت ور ہیں۔
5- “الریاض”- کلاس فرائیگیٹ
سعودی عرب کی جدید بحری طاقت کے سامنے ایران کو پرانے اور نسبتا کمزور بحری ہتھیاروں کی وجہ سے، اپنی تیز رفتار کشتیوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب کے پاس نمایاں ترین ہتھیار”الریاض” کلاس کی طیارہ شکن فرائیگیٹ ہے۔ یہ اپنی فرانسیسی ہم پلہ فرائیگیٹ La Fayette سے تقریبا 25 فی صد بڑی ہے۔
یہ فرائیگیٹ Aster 15 میزائل کو عمودی شکل میں فائر کرنے کے نظام سے لیس ہے۔ زمین سے فضا میں مار کرنے والے ان میزائلوں کے ذریعے تقریبا 20 میل کی پہنچ میں اور 50 ہزار فٹ کی بلندی تک حملہ آور طیاروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ “الریاض” فرائیگیٹ ” MBDA Exocet MM40 Block II ” ماڈل کے 8 بحری جہاز شکن میزائلوں سے بھی لیس ہے۔
ویکیپیڈیا پر سعودی رائل نیوی سے متعلق صفحے کے مطابق سعودی عرب کے پاس اس نوعیت کی 3 فرائیگیٹ ہیں۔ فرانس کی تیار کردہ یہ فرائیگیٹ دراصل فرانسیسی ” La Fayette F-3000″ کا ترمیم شدہ ورڑن ہے، اور یہ مکمل طور پر آرمڈ پیکج اور الیکٹرونک وارفیئر سسٹم سے لیس ہے۔ اس کے علاوہ اس میں درمیانی حجم کے ہیلی کاپٹروں مثلا یوروکوپٹر پینتھر اور این ایچ 90 کے لیے ہیلی پیڈ بھی موجود ہے۔
“دی نیشنل انٹرسٹ” کے مطابق “الریاض” فرائیگیٹ کی صلاحیتوں میں آبدوز شکن ہتھیار بھی شامل ہے اور یہ “DCNS F17” ماڈل کا ٹارپیڈو ہے۔