پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اچھے فیصلے درخت کی قلم کی طرح ہوتے ہیں

datetime 22  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

”تم جانتے ہو دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ کون سا ہے“ ان کی نظر یں میرے چہرے پر جم گئیں‘ میں نے پانچ سات ائیرپورٹوں کا نام لیا لیکن ہر نام پر انہوں نے نفی میں سرہلا دیا‘ میں نے تھک کر عرض کیا ”سر آپ ہی فرما دیجئے“ وہ میٹھے لہجے میں بولے ”شکاگو کا او۔ہیر (O,HARE) کا شمار دنیا کے مصروف ترین ائیر پورٹس میں ہوتا ہے‘ اس ائیرپورٹ سے روزانہ 119 انٹرنیشنل فلائیٹس اڑتی ہیں‘ یہ اس وقت دنیا کا آٹھواں بڑا جبکہ2008ءتک یہ دنیا کا دوسرا بڑا ائیرپورٹ تھا ‘ اس نے 2003ءمیں شمالی امریکہ کے بہترین ائیرپورٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا‘اس کے 4ٹرمینل اور182 گیٹ ہیں“۔
میں نے انہیں ستائشی نظروں سے دیکھا‘ وہ مسکرا کر بولے ”لیکن کہانی یہ نہیں‘ کہانی اس ایئرپورٹ کا نام ہے‘ او۔ہیر ایک چھوٹا سا سرکاری ملازم تھا‘ او۔ہیر کا پورا نام بچ او۔ہیر (BUTCH-O HARE) تھا‘ وہ امریکی فوج میں فائیٹر پائلٹ تھا‘ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس کی ڈیوٹی ائیر کرافٹ کیریئر LEXINGTON پرلگ گئی‘ یہ ائیرکرافٹ کیریئر پیسفک اوشین میں کھڑا تھا‘ او ۔ہیر اور اس کے دوسرے فائیٹر پائلٹس بحری جہاز سے اپنے طیارے اڑاتے تھے‘ جاپانیوں پر حملے کرتے تھے اورواپس آجاتے تھے‘1941ءدسمبر کی ایک شام او۔ ہیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اڑا‘ یہ لوگ ابھی چند میل دور گئے تھے کہ او۔ہیر نے اپنے سنگل انجن ”گرووومین ایف 4 ایف“ طیارے کے فیول کی سوئی دیکھی‘ اس کے طیارے میں پٹرول بہت کم تھا‘ او۔ ہیر نے اپنے چیف کو اپنی پوزیشن بتا دی‘ چیف نے اسے فوری طورپر واپس جانے کا حکم دے دیا‘ او۔ ہیر ائیرکرافٹ کیریئر کی طرف واپس مڑ گیا‘ جب وہ کیریئر کے قریب پہنچا تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا‘ اس نے دیکھا 9جاپانی طیارے کیریئر پر حملہ آور ہیں اورکیریئر کی حفاظت کےلئے وہاں کوئی طیارہ موجود نہیں‘ اس صورتحال میں او۔ہیر کے پاس دوراستے تھے‘ وہ اکیلا ان تمام جاپانی طیاروں کا مقابلہ کرتا یا پھر وہ اپنی جان بچا کر فرار ہوجاتا ‘او۔ہیر ایک دلیر شخص تھا لہٰذا اس نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ جاپانی طیاروں پر پل پڑا‘ وہ فضا میں طیاروں پر جھپٹتا ‘ان پر گولے پھینکتا اوردوسری طرف نکل جاتا ‘وہاں سے واپس پلٹتا اوردشمن طیاروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا‘ اس نے آدھے گھنٹے میں دشمن کے 5طیارے مار گرائے‘اس دوران اس کا بارود ختم ہوگیا‘ اس نے نئی تکنیک سے لڑنا شروع کردیا‘ وہ دشمن طیارے پر جھپٹتا اوراسے اپنے طیارے کے پر سے چھیلتا ہوا دوسری طرف نکل جاتا‘ اس تکنیک کے نتیجے میں دشمن کے مزید تین طیارے تباہ ہوگئے جبکہ آخری طیارہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ سمندر میں گر گیا‘ او۔ہیر کیریئر پر اتر آیا‘اسی اثناءمیں اس کے ساتھی پائیلٹس واپس آگئے او۔ہیر نے انہیں ساری بات بتائی لیکن ان لوگوں نے یقین کرنے سے انکارکردیا‘ اس زمانے میں امریکی فضائیہ کے تمام طیاروں میں کیمرے نصب ہوتے تھے‘ یہ کیمرے آپریشنز کے دوران تصویریں اتارتے رہتے تھے‘ او۔ہیر اپنے طیارے سے کیمرہ اتار کر لے آیا‘ جب تصویریں بن کر آئیں تو پورے امریکہ میں شور ہوگیا‘ امریکہ کا بچہ بچہ او۔ہیر زندہ باد کے نعرے لگانے لگا‘ حکومت نے فروری 1942ءمیں اوہیر کو دوسری جنگ عظیم کا پہلا نیوی ایس (ACE) ایوارڈ دیا جبکہ 1943ءمیں اسے امریکن آرمی کے انتہائی شاندار ایوارڈ فلائنگ کراس سے بھی نوازا گیا‘ او۔ ہیر 26 نومبر 1943ءمیں ایک جنگی مہم پر نکلا‘ اس کا طیارہ دشمن کا نشانہ بنا‘ وہ سمندر میں گرااورہمیشہ ہمیشہ کےلئے لاپتہ ہوگیا‘ اس کی موت کے بعد امریکی حکومت نے اپنا سب سے بڑا ائیرپورٹ اس کے نام منسوب کردیا“ وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے جذباتی لہجے میں کہا ”سر ویل ڈن یہ تو واقعی لاجواب کہانی ہے“ وہ مسکرائے ”نہیں میں تمہیں اس سے بھی اچھی کہانی سنانا چاہتا ہوں“ میں ہمہ تن گوش ہوگیا‘ وہ بولے ”شکاگو میں ایزی ایڈی نام کا ایک وکیل رہتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے بے تحاشا ذہانت سے نواز رکھا تھا‘ اسے امریکہ کا سارا قانون ازبر تھا‘ وہ شکاگو کا سب سے اچھا مقرر بھی تھا‘ کیریئر کے آغاز میں اس کی ملاقات الکپون نام کے ایک بدمعاش سے ہوگئی‘ الکپون شکاگو کا مافیالارڈ تھا‘ پورا شہر اس سے ڈرتا تھا‘ الکپون نے ایزی ایڈی کو اپنا وکیل نامزدکردیا‘ پولیس جب بھی الکپون کو پکڑتی ایزی ایڈی بڑی مہارت سے اسے عدالت سے چھڑالیتا‘ اس زمانے میں لوگ کہتے تھے اگر الکپون کو ایزی ایڈی کا تعاون حاصل نہ ہوتو اس کا سارا مافیا ایک مہینے میں بکھر جائے‘ ایزی ایڈی نے الکپون سے بے تحاشا مالی فوائد حاصل کیے‘ اس کا شمار شکاگو کے امراءمیں ہوتا تھا‘ اس کے پاس شہر کا سب سے بڑا فارم ہاﺅس تھا‘ وہ بیسیوں گاڑیوں اور لمبے چوڑے بینک بیلنس کا مالک تھا‘ایزی ایڈی کا ایک ہی بیٹا تھا ‘اس نے اسے دنیا کی ہر نعمت دے رکھی تھی‘ ایک دن یہ بیٹا گھر آیا اوراپنے باپ کا دامن پکڑ کر بولا‘ ڈیڈی میں جب بھی باہر جاتا ہوں تو بچے مجھے الکپون‘ الکپون کہہ کر چھیڑتے ہیں‘بیٹے کی یہ بات باپ کے دل پر لگی‘ وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا اوراس نے سوچا ‘ میں نے اپنے بیٹے کو دنیا کی تمام سہولتیں دے دی ہیں لیکن میں اسے ایک اچھی شناخت ‘ایک اچھا نام نہیں دے سکا‘ ایزی ایڈی نے اسی وقت الکپون کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا‘ وہ گھر سے نکلا تو وہ جانتا تھا وہ اب کبھی گھر واپس نہیں آسکے گا‘ الکپون کے کاغذوں میں غداری کی سزاموت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ایزی ایڈی سیدھا تھانے گیا اوراس نے الکپون کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا اعلان کردیا‘ پولیس نے اسی وقت الکپون کو گرفتار کرلیا‘ ایزی ایڈی گھر کی طرف رخصت ہوا تو راستے میں کسی نے اسے گولی سے اڑادیا تھا“ وہ رکے اورمیری طرف دیکھ کر مسکرائے ”یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے“ میں نے حیران ہوکر عرض کیا ” سر یہ تو ایک نہایت ہی فضول اوربچگانہ سی کہانی ہے‘ جاسوس ناول اور ڈائجسٹ ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں“ انہوں نے قہقہہ لگایا ”میں ابھی ایک فقرہ بولوں گا اوریہ دنیا کی بہترین اورانتہائی قیمتی کہانی ہوجائے گی“ انہوں نے سرکس کے جادو گروں کی طرح میری طرف دیکھا اورمسکرا کر بولے ”ہماری پہلی کہانی کا ہیرو او۔ہیر اس ایزی ایڈی کا بیٹا تھا“ مجھے جھٹکا لگا اورمیں شدت حیرت سے کھڑا ہوگیا۔
وہ مسکرائے ”میرے بچے بعض فیصلے‘ بعض نیکیاں کھجور کے درختوں کی طرح ہوتی ہیں‘ ایک نسل انہیں کاشت کرتی ہے‘ ان کی آبیاری کرتی ہے‘انہیں جوان کرتی ہے اور اس کے بعد قبر میں اتر جاتی ہے اوردوسری نسل اس نیکی ‘اس فیصلے کا پھل کھاتی ہے‘ اگر ایزی ایڈی اس لمحے یہ فیصلہ نہ کرتا تو اس کا بیٹا بڑا ہوکر کسی مافیا کا حصہ بن جاتا‘ وہ کسی پولیس مقابلے میں ماراجاتا اور تاریخ اس کا نام تک فراموش کر دیتی لیکن ایزی ایڈی نے اپنے بیٹے کو ایک اچھا نام دینے کا فیصلہ کیا‘ وہ خود مر گیا لیکن اپنے بیٹے کو نیکی اور سچ کے راستے پر کھڑا کرگیایہاں تک کہ اس کا بیٹا او۔ہیر اس راستے پر چلتا چلتا امریکہ کا قومی ہیرو بن گیا‘ وہ اپنے باپ کو ایک ایسی شناخت دے گیا جو قیامت تک برقرار رہے گی‘ آج بھی جب کوئی طیارہ او۔ہیر ائیرپورٹ پر اترتا ہے اوراس کے اندر خواتین وحضرات ہم چند لمحوں میں او۔ہیر ائیرپورٹ پر اترنے والے ہیں کا اعلان ہوتا ہے تو سب لوگ سر سے ٹوپی اتار کر ایزی ایڈی کی عظمت کو سلام کرتے ہیں‘ وہ سرخم کرکے اسے زندہ باد کا نذرانہ پیش کرتے ہیں‘ ایزی ایڈی اوراس کے بیٹے او۔ہیر کی کہانی بتاتی ہے اچھے فیصلے درخت کی قلم کی طرح ہوتے ہیں‘ اگر آپ چاہتے ہیں آپ کی اولاد گرمی‘ تپش اور بارش سے محفوظ رہے تو آپ کو ایزی ایڈی کی طرح اپنے صحن میں کسی اچھے فیصلے کی قلم بونا پڑتی ہے‘ آپ کو اپنی نسل‘ اپنی اولاد کو اچھا نام دینے کیلئے اپنی جان‘ اپنی ذات کی قربانی دینا پڑتی ہے‘ میں چاہتا ہوں اس ملک کا ہر صاحب اولاد اپنی میز پر ایزی ایڈی کا نام لکھ کر لگادے اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے ایک منٹ کیلئے سوچے کیا میرا یہ فیصلہ میرے بیٹے کو او۔ ہیر بنا دے گا اگر اس کا جواب ہاں ہو تو اسی وقت فیصلے کی طرف اٹھ کھڑا ہو‘ فیصلہ کا یہ ایک قدم اسے تاریخ کا سنگ میل بنا دے گا“۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…