بدھ‬‮ ، 15 جنوری‬‮ 2025 

سرکریک، سیاچن اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل تلاش کرلیا گیا تھا،پرویزمشرف کے انکشافات

datetime 3  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوزڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کارگل کی جنگ اسٹریٹجک اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے لیکن فوجی فتح کو سیاسی شکست میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ فوج بھارت کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن عزت اور وقار کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتی ہے۔ وہ پیر کو سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب ”Neither a Hawk nor a Dove“ (نہ عقاب نہ فاختہ) کی مقامی ہوٹل میں تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے دور حکومت میں پاک بھارت تعلقات بہتر تھے، ہم تمام تنازعات کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ سرکریک، سیاچن اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل تلاش کرلیا گیا تھا۔ سرکریک میں متنازعہ علاقوں کی حد بندی کردی گئی تھی۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے 4 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوچکا تھا۔ یعنی لائن آف کنٹرول پر فوجوں کی تعیناتی میں بتدریج کمی کی جائے۔ کشمیر میں حکومت کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے۔ پاک بھارت نگرانی کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ کشمیریوں کی آزادانہ نقل وحمل کے لئے 6 روٹس کھول کر لائن آف کنٹرول کو غیر متعلق بنادیا جائے۔ ان چار نکات سے مسئلہ کشمیر حل ہوجاتا۔ 2006ئ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو پاکستان آنا تھا لیکن وہ باوجوہ نہ آسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ناکام کیوں ہوئے، اس حوالے سے میں نے 2 سبق سیکھے ہیں۔ پہلا سبق یہ ہے کہ مواقع آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لیڈر شپ کو ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ دونوں طرف سے لچک دار رویہ اور اخلاص ہو اور فریقین کچھ لو اور کچھ دو کے لئے تیار ہوں۔ اس حوالے سے فیصلہ کرنے کے لئے جرا ¿ت چاہئے۔ وزیراعظم واجپائی اور من موہن سنگھ تنازعات کو حل کرنے میں مخلص تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بھارت کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن عزت اور وقار کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتی ہے۔ تقریب سے بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر، بھارت کے سینئر سیاستدان، سابق وزیر اور دانشورمانی شنکر آئر اور بھارت میں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کرانے والے اور آبزرور ریسرچ فا?نڈیشن کے سربراہ سدھ نیندرا کلکرنی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے شرکائ نے کلکرنی کا پرتپاک استقبال کیا۔ جب وہ اسٹیج پر آئے تو تقریب کے شرکائ نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ کلکرنی کو اس وجہ سے شہرت ملی تھی کہ بھارت میں شیوسینا کے شرپسندوں نے ان کے منہ پر کالا رنگ مل دیا تھا اور انہوں نے اسی حالت میں کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی تھی۔ پرویزمشرف نے خورشید محمود قصوری کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ہمارے دور کے خارجہ تعلقات کی حقیقی کوریج ہے اور خورشید محمود قصوری نے انتہائی دیانتداری اور جرا ¿ت سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ جب میں نے انہیں وزیر خارجہ بنایا تھا تو میں نے ان سے پہلا سوال یہی کیا تھا کہ آپ بھارت کے معاملے پر عقاب بننا چاہیں گے یا فاختہ؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ نہ عقاب اور نہ فاختہ اور ہم نے اسی پالیسی پر عمل کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے اور یونی پولر ورلڈ کے قیام کے بعد دنیا کی توجہ ہمارے خطے کی طرف ہوگئی۔ پاکستان خطے میں ایک ”کراس روڈ“پر واقع تھا۔ میرا دور حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ دور تھا جب گڈ گورننس تھی۔ ہم سماجی اور اقتصادی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے اور امن وامان کی صورت حال بہتر تھی۔ اگر آپ داخلی طور پر مضبوط ہوں تو خارجی پالیسی کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خورشید محمود قصوری ایک موثر وزیر خارجہ تھے اور میری انہیں مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ خورشید قصوری کی آدھی سے زیادہ کتاب پاک بھارت تعلقات پر ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری اس معاملے پر کتنی توجہ تھی۔ انہوں نے پاک بھارت تنازعات کا دیانتدانہ تجزیہ کیا ہے۔ کتاب کے مصنف اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ مجھے شیوسینا نے دھمکیاں دیں کہ آپ بمبئی نہیں اتر سکتے لیکن میرے میزبان سدنیندراکلکرنی نے جرا ¿ت کا مظاہرہ کیا اور میں نے ان سے کہا کہ میں بھارت آرہا ہوں۔ مجھے آپ کے علاوہ اب کوئی نہیں روک سکتا۔ وہاں بھارت کی مرکزی حکومت اور مہاراشٹر کی حکومت نے مجھے سخت سیکورٹی دی۔ شیوسینا کے لوگوں نے کلکرنی کے چہرے پر کالا رنگ مل دیا اور وہ اسی طرح میری کتاب کی تقریب رونمائی میں آگئے۔ شو شینا کی دھمکیوں کے باوجود تقریب منعقد کی گئی۔ میڈیا نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے کوریج دی۔کلکرنی سے کہا گیا کہ وہ چہرہ صاف کرکے تقریب میں بیٹھیں تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مخالفین کے چہرے کالے ہونے تک وہ چہرہ صاف نہیں کریں گے۔اس واقعے کی وجہ سے شیوسینا کو دنیا میں منفی کوریج ملی۔ اب وہ ایسا کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دہلی میں میری کتاب کو بڑی پذیرائی ملی اور میں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ ہوا۔ اس کو معروضی انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بھارت سے دوستی کی مخالف نہیں ہے لیکن وہ برابری کی سطح پر اور منصفانہ طریقے سے کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتی ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



افغانستان کے حالات


آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…