اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر اعظم شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان حالیہ ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی قمر الاسلام راجہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔قمر الاسلام، جنہوں نے 2018 کے انتخابات میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی، نے خبردار کیا ہے کہ اگر چوہدری نثار کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ نہ صرف پارٹی کے اندر اس کے خلاف آواز بلند کریں گے بلکہ کھلے عام اس فیصلے کی مخالفت بھی کریں گے۔
انٹرویو کے دوران قمر الاسلام نے کہا کہ چوہدری نثار نے کئی پریس کانفرنسز میں نواز شریف اور مریم نواز پر براہ راست تنقید کی، اور یہ باتیں سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2029 تک حلقے کی نمائندگی کا اختیار ان کے پاس ہے اور وہ اس میں کسی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔قمر الاسلام نے انکشاف کیا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل جب انہیں گرفتار کیا گیا، تب دباؤ ڈالا گیا کہ وہ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حلقے میں اتنا خوف تھا کہ (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے کی کسی نے ہمت نہیں کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بچوں کی انتخابی مہم کے دوران ان کی اہلیہ کو دھمکیاں دی گئیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چوہدری نثار دعویٰ تو اصولوں کی سیاست کا کرتے ہیں، لیکن ان کا طرزِ عمل اس سے برعکس ہے۔
انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار نے مریم نواز کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بچوں کی قیادت تسلیم نہیں کرتے، اب میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ اپنے بیٹے کو میری تربیت میں دے دیں۔یاد رہے کہ تین روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے چوہدری نثار سے ان کے گھر پر ملاقات کی تھی، جس میں ان کے صاحبزادے تیمور علی خان بھی شریک تھے۔ یہ ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی، اور وزیر اعظم آفس کے مطابق اس موقع پر ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔وزیر اعظم نے چوہدری نثار کو جلد صحت یاب ہونے کی دعا دیتے ہوئے انہیں اہلِ خانہ کے ہمراہ ایک نجی ملاقات کی دعوت بھی دی، جو قبول کر لی گئی۔ فیصلہ ہوا کہ عاشورہ محرم کے بعد یہ ملاقات کھانے پر ہوگی۔چوہدری نثار علی خان، جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کئی دہائیوں پر محیط سیاسی سفر کیا، 2018 میں پارٹی سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور دعویٰ کیا کہ (ن) لیگ نے بیشتر ٹکٹ سیاسی طور پر کمزور امیدواروں کو دیے تھے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے بھی انہیں پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے عمران خان سے قریبی تعلق کے باوجود یہ پیشکش مسترد کر دی۔