یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس کے شہر انیسی میں اپنی بیگم کے ساتھ سیر کر رہے تھے‘ یہ دونوں کسی گلی کے کسی مکان کی دہلیز پر بیٹھے تھے وہاں سے ایک افغانی پاکستانی شہری گزرا‘ اس نے جنرل باجوہ کو پہچان لیا اور ان کی ویڈیو بنانا شروع کر دی‘ ویڈیو بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی‘ ویڈیو بنانے والے نے اسے ایڈٹ کر کے اس پر کمنٹری بھی ریکارڈ کر دی تھی جس میں نامناسب الفاظ اور فقرے تھے‘ دوسری طرف جنرل باجوہ نے ویڈیو بنانے والے کی تصویر کھینچ کر فرانس حکومت کو دے دی اور اس کے بعد اس شخص کو فرانس سے بھی فرار ہونا پڑا اور ویڈیو بھی ڈیلیٹ کرنا پڑی‘
آپ دوسرا واقعہ بھی دیکھیں‘ 2022ء میں مریم اورنگزیب وفاقی وزیر اطلاعات تھیں‘ وزیراعظم شہباز شریف28 اپریل2022ء کو سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے‘ وفد میںمریم اورنگزیب بھی تھیں‘ مسجد نبوی میں چند پاکستانیوں نے انہیں گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کر دی‘ یہ ویڈیو بھی وائرل ہو گئی‘ سعودی حکومت نے ویڈیو بنانے اور نعرے لگانے والے تمام لوگ گرفتار کیے‘ مرکزی ملزموں کو دس دس پندرہ پندرہ سال قید ہوئی‘ باقی تمام کو ڈی پورٹ کر دیا گیا اوریہ ہمیشہ کے لیے سعودی عرب کے لیے بین ہو گئے‘ یہ اب کبھی سعودی عرب کا ویزہ حاصل نہیں کر سکیں گے‘ جنرل جنرل باجوہ کے ساتھ دوبئی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا‘ یہ اپنے بیٹے کے ساتھ ٹریفک سگنل پر کھڑے تھے‘ کسی نے ان کی تصویر بنا لی اور یہ تصویر بھی وائرل ہو گئی‘ وہ شخص بھی پکڑا گیا‘ دوبئی سے ڈی پورٹ ہوا اور ہمیشہ کے لیے دوبئی کے لیے بین ہو گیا۔
یہ چند واقعات ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں دوبئی ہو‘ سعودی عرب ہو یا پھر یورپ ہو کوئی شخص کسی شخص کی بلااجازت ویڈیو بنا سکتا ہے اور نہ تصویر اگر کوئی بنا لے اور دوسرے شخص کو پتا چل جائے تو وہ اس کے خلاف شکایت کر سکتا ہے اور پولیس ویڈیو بنانے والے کو پیک کر کے رکھ دیتی ہے‘ دوسرا تمام سولائزڈ ممالک میں کوئی شخص کسی شخص کے خلاف نفرت‘ بے عزتی اور ہتک سے بھرا ہوا مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کر سکتا‘ برطانیہ کے قوانین ذرا نرم تھے لیکن 29جولائی 2024ء کوسائوتھ پورٹ میں تین کم سن لڑکیاںایک لڑکے ایکسل رداکبانہ کے ہاتھوں ماری گئیں‘ کسی نے سوشل میڈیا پر قاتل کو مسلمان قرار دے دیا ‘ یہ فیک نیوز تھی‘یہ تیزی سے وائرل ہوئی اور برطانیہ میں مسلمانوں کی پراپرٹیز اور مسجدوں پر حملے شروع ہو گئے اور یوں وہاں فسادات پھوٹ پڑے‘ پولیس نے تین چار دنوں میں نہ صرف تمام مجرم گرفتار کر لیے بلکہ چوبیس گھنٹے عدالتیں لگا کر ڈیڑھ سو ملزموں کو سزائیں بھی دیں‘
برطانیہ اب فائر وال کے ذریعے سوشل میڈیا کو مانیٹر بھی کر رہا ہے جب کہ پاکستان میں فیک نیوز اور دوسروں کی پرائیویٹ ویڈیوز ایک نارمل عمل ہے‘ آپ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں فیک نیوز اور لوگوں کی پرائیویٹ ویڈیوز مل جائیں گی‘ پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ کروڑ موبائل فونز ہیں‘ ان میں سے 15 کروڑ سمارٹ فون ہیں اور اتنے ہی تجزیہ کار‘ مبصر اور اینکر ہیں‘ ان 15 کروڑ لوگوں کو راہ چلتے جو بھی شخص نظر آجاتا ہے یہ اس کی ویڈیو بنانے لگتے ہیں اور وہ شخص چند گھنٹوں میں کوڑی کا نہیں رہتا‘ یہ کھیل اگر یہاں تک رہتا تو شاید برداشت ہو جاتا لیکن یہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے‘ پاکستانی معاشرہ وائرل ہونے کے خبط میں مبتلا ہو چکا ہے‘
سوشل میڈیا پر لاکھوں اکائونٹس ہیں اور ان میں سے ہر شخص وائرل‘ شیئرز‘ لائیکس اور سبسکرپشن کی دوڑ میں لگ چکا ہے اور اس دوڑ نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے‘ ہم لوگ وائرل ہونے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں‘ مثلاً ایک ایم این اے اور سیاست دان سینٹورس میں اپنی بہو اور بیٹی کے ساتھ کھڑا تھا‘ کسی نے اس کی ویڈیو بنائی اور اس کی بہو اور بیٹی کو اس کی گرل فرینڈ قرار دے دیا اور یہ بری طرح وائرل ہو گئی‘ آپ اب ذرا اس خاندان کی اذیت کا اندازہ کیجیے‘ ہم آئے روز کسی پارٹی کی ویڈیو دیکھتے ہیں جس میں چند لوگ شراب پی کر ڈانس کر رہے ہوتے ہیں‘ یہ ویڈیو اکثر اوقات ججوں سے منسوب کر دی جاتی ہے اور لوگ نہ صرف اس پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ اسے فارورڈ بھی کرتے ہیں‘ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے اسی طرح مختلف سیاست دانوں اور صحافیوں کے واہیات نام رکھے ہوئے ہیں‘
یہ کسی کو بوٹ پالشیا‘ کسی کو پٹواری‘ کسی کو لفافہ اور کسی کو کا لاڈلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور لوگ بعدازاں اس کو اس نام سے پکارنے لگتے ہیں‘ آج کل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق ان کا خصوصی ہدف ہیں‘ چیف جسٹس کی ڈونٹس کی ویڈیو خوف ناک حد تک وائرل ہوئی ‘ یہ ویڈیو بیکری کے ایک ایسے سیلز مین نے بنائی تھی جسے قاضی فائز عیسیٰ کا نام بھی نہیں آتا تھا‘یہ وائرل ہوئی اور پی ٹی آئی نے ڈونٹس شاپ کو زیارت گاہ بنا لیا اور آپ اب اس صورت حال کا کلائمیکس دیکھیے۔
پنجاب کالج لاہور کے گلبرگ کیمپس سے متعلق ایک ویڈیو 10اکتوبر کو سامنے آئی‘ اس میں ایک طالبہ نے دعویٰ کیا ہمارے کمپلیکس کے بیس منٹ میں فرسٹ ائیر کی ایک لڑکی ریپ ہو گئی اور یہ ریپ کالج کے سیکورٹی گارڈ نے کیا‘ یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی‘ ملک میں اگلے دو دنوں میں ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس چل رہا تھا اور دوسری طرف یہ ویڈیو وائرل ہو رہی تھی یہاں تک کہ یہ سکینڈل ایس سی او کی میڈیا کوریج کو کھا گیا‘ طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا‘ احتجاج بڑھتے بڑھتے پورے پنجاب میں پھیل گیا اور طالب علموں نے درجنوں کیمپس تباہ کر دیے‘ شیشے توڑ دیے گئے‘ عمارتوں کو آگ لگا دی گئی اور گاڑیاں اور موٹر سائیکل جلا دیے گئے‘ ساڑھے چار سو لوگ زخمی ہو گئے‘ گجرات کا سیکورٹی گارڈ مارا گیا اور دو دن قبل راولپنڈی میں پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس چلانا پڑگئی‘
جمعہ 18 اکتوبر کو پنجاب کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کرنا پڑ گئے جب کہ دوسری طرف پولیس اور وزیر اعلیٰ مسلسل چیخ رہے ہیں اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں‘ جس لڑکی کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ دو اکتوبر کو گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اور اس وقت آئی سی یو میں ہے‘اُدھر سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے ریپ10 اکتوبر کو ہوا‘ لڑکی کے والدین اور رشتے دار بیان دے چکے ہیں ہماری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا‘
پولیس نے گارڈ کو سرگودھا سے گرفتار کر لیا‘اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت کیا میں اس دن وقوعہ پر موجود نہیں تھا لیکن مظاہرین حقائق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ان کادعویٰ ہے وزیراعلیٰ اور پولیس واقعے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حکومت واقعے پر پردہ کیوں ڈالے گی اگر ریپ ہوا ہوتا تو پولیس کے لیے آسان تھا یہ ملزم کو گرفتار کرتی‘ عدالت میں پیش کرتی اور یہ معاملہ چند گھنٹوں میں نبٹ جاتا‘ اسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ریپ کا الزام کسی بڑے آدمی یا کالج کے پرنسپل پر ہے؟ جی نہیں‘ اس میں صرف گارڈ کا نام لیا جا رہا ہے‘ پولیس اور حکومت کوگارڈ میں کیا دل چسپی ہو گی؟ دوسرا ابھی تک کوئی متاثرہ لڑکی سامنے نہیں آئی‘ ویڈیو بنانے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنی غلطی مان چکے ہیں‘ یہ بتا رہے ہیں ہم نے سنی سنائی بات پر بلا تحقیق ویڈیو بنا دی تھی اور ہم اس پر معذرت خواہ ہیں‘ یہ بھی پتا چلا اس ایشو کو 66 سوشل میڈیا پیجز سے وائرل کیا گیا‘ چند بڑے صحافیوں اور یوٹیوبرز نے اسے ہوا دی اور یوں یہ ایشو بن گیا اور اس نے پنجاب بھر میں آگ لگا دی۔
یہ واقعہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے موبائل فون کی شکل میں ایک بم ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کا ٹریگر سوشل میڈیا کے ایلگوردھم کے ہاتھ میں ہے اور امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل میں بیٹھے کسی شخص نے لیپ ٹاپ کا بٹن دبانا ہے اور ہمارے ملک میں آگ لگ جائے گی‘ اس ریپ ایشو میں بھی یہی ہو رہا ہے‘ ریپ سے متعلقہ ویڈیوز صرف نوجوان طالب علموں کو دکھائی جا رہی ہیں اور خاص عمر اور خاص نفسیات کے نوجوان اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور ہم تیزی سے بنگلہ دیش جیسی صورت حال کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم معاشرے کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں‘ ملک میں انارکی پھیل جائے اور خانہ جنگی پورے ملک کو نگل جائے یا پھر ہم سخت قوانین بنائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں‘ میری تجویز ہے حکومت کو فوری طور پر دو قوانین بنانے چاہییں‘ ایک کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کی بلا اجازت تصویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اگر کوئی شخص یہ حرکت کرے تو اس پر بھاری جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور کم از کم دس سال قید بھی‘ دوسرا فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے خلاف قوانین کو سخت کر دیا جائے‘
ملک میں اگر فوری طور پر سائبر کورٹس بنا دی جائیں تو یہ بھی بہت بڑی مہربانی ہو گی‘ سائبر کورٹس کو پابند کیا جائے یہ چھ ماہ میں فیصلے کریں اور فیک نیوز بنانے اور پھیلانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیں‘ ہم نے ملک کو تماشا بنا دیا ہے یہاں کوئی ماجھا گاماں اٹھتا ہے ‘پورے شہر میں آگ لگا دیتا ہے اور ریاست سائیڈ پر کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے‘ یہ تماشا اب بند ہونا چاہیے‘ ہمارا پورا ملک فالٹ لائنز پر کھڑا ہے یہاں کسی دن اگر کوئی فالٹ لائین پھٹ گئی تو ہم خون میں ڈوب جائیں گے لہٰذا خدا کا واسطہ ہے ریاست عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے بندے توڑنے کی بجائے فیک نیوز جیسے طوفانوں پر توجہ دے‘ مولانا یا عمران خان ملک کے لیے اتنی بڑی تھریٹ نہیں ہیں جتنا بڑا مسئلہ یہ فیک نیوز ہیں‘پلیز اس پر توجہ دیں۔