اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی جب اپنے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکے بعد 1988کے انتخابات میں دوبارہ برسراقتدارآئی تھی تواس وقت بے نظیربھٹوسمیت پیپلزپارٹی کے رہنماء اورکارکنان یہ نعرے بلند کرتے تھے کہ زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے۔اورتم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وہ نعرے ہیں جن کی گونج پارٹی کے ہر جلسے اور میٹنگ میں سنائی دیتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے پانچ سالہ دورِ حکومت کے بعد ماضی کی مقبول ترین جماعت پیپلز پارٹی کی مقبولیت ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جا رہی ہے۔آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تو اب پیپلز پارٹی کے صرف آثار ہی ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر گھر سے بھٹو نکلنے کا یقین رکھنے والے اب پیپلز پارٹی کے مٹھی بھر جیالوں کو بھی گھروں سے نکال کر انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں نہیں لا پاتے۔لاہور میں ہونے والا ضمنی انتخاب پیپلز پارٹی کی پنجاب میں ناکامی کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کے انتخابی جلسوں میں نہ تو بھٹو کے جیالے نظر آتے ہیں اور نہ ہی میڈیا پیپلز پارٹی کے امیدوار کو اتنی اہمیت دے رہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم دکھائے۔لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سردار ایاز صادق اور پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کے درمیان ہے۔لاہور کا یہ حلقہ 2002 کے انتخابات سے پہلے حلقہ این اے 94 کے زیادہ تر حصّوں پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ حلقہ این اے 98 کے بیشتر علاقے اور حلقہ این اے 95 کی چند یونین کونسلز 2002 میں بننے والے قومی اسمبلی کے اس حلقے میں شامل کی گئیں۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 94 سے 1988 کے انتخابات میں شہید محترمہ بےنظیر بھٹو بھی اس حلقے سے منتخب ہوچکی ہیں۔ تاہم یہ نشست محترمہ کی طرف سے چھوڑ دی گئی اور بعد ازاں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ 1977 کے انتخابات میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے میاں احسان الحق بھی جیت چکے ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں