ہم میں سے90 فیصد لوگ فوکسی کے انجن کی طرح لیٹ سٹارٹ ہوتے ہیں‘ میں بھی ان میں شامل ہوں اور ڈاکٹر شہزاد رانا بھی‘ یہ بھی ’’لیٹ سٹارٹر‘‘ ہیں لیکن جب یہ سٹارٹ ہوئے تو انہوںنے کمال کر دیا‘ ماس کمیونی کیشن میں ایم اے کیا‘ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا‘ پی ایچ ڈی کی‘ ڈیپارٹمنٹ میں فلم اینڈ ڈاکومنٹری کا آغاز کیا‘ ڈیجیٹل میڈیا سنٹر بنایا‘یہ ملک میں پہلا شعبہ صحافت تھا جس میں سٹوڈیوز بھی بنے اور سوشل میڈیا پر چینل بھی لانچ ہوا اور یہ ڈاکٹر محمد شہزاد رانا کا کارنامہ تھا‘ ان کے اب تک ملک اوربیرون ملک بیسیوں انٹرویوز ہو چکے ہیں‘ درجنوں ریسرچ پیپرز شائع ہو چکے ہیں اور یہ8 سکالرز کو پی ایچ ڈی بھی کرا چکے ہیں‘ میں جب بھی شہزاد رانا کی کام یابیاں دیکھتا ہوں تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے‘اس شخص نے واقعی ہم سب کو حیران کر دیا‘ یہ اس وقت ماس کمیونی کیشن اور میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں اور تمام طالب علم دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔
میں اپنی کہانی کی طرف واپس آتا ہوں‘ ہماری کلاس میں بہت دل چسپ لوگ تھے لیکن ان میں تین ناقابل فراموش ہیں‘ پہلے فیضان عارف تھے‘ یہ یونیورسٹی میںداخلے سے پہلے ہی صحافی تھے اور شاعری میں بھی ٹھیک ٹھاک سکہ جما چکے تھے‘ عین جوانی میںجب ہم لوگ بسوں سے لٹک کر سفر کرتے تھے یا سینما گھروں کی سکرین کے سامنے ڈانس کرتے تھے فیضان عارف اس وقت بھی انتہائی سیریس اور مدبر تھے‘ نپی تلی گفتگو کرتے تھے اور ادب آداب میں بھی ہم سے بہت آگے تھے اور تعلقات میں بھی‘ کمشنر اور کور کمانڈرزتک انہیں ساتھ ساتھ لے کر پھرتے تھے‘ یہ بعدازاں لندن چلے گئے‘ جنگ لندن اور لوکل ٹیلی ویژنز پر کام کیا اور آج کل اپنا بزنس کر رہے ہیں‘ میں جب بھی ان سے ملتا ہوں ان کی علمیت کا پہلے سے زیادہ قائل ہو جاتا ہوں‘ میرے دوسرے کلاس فیلو کا نام خالد وکیل تھا‘ میں نے پاکستان میں کسی شخص کو خالد وکیل سے بہتر فیض احمد فیض اور ن م راشد کو پڑھتے نہیں دیکھا‘ یہ شخص سر سے لے کر پائوں تک شاعر تھا‘
وہی شاعروں جیسی بے چینی‘ وہی شاعروں جیسا اغماض اور وہی شاعروں جیسی سادگی‘ وہ مکمل شاعر تھا اور اس کی ادائیگی میرا نہیں خیال کوئی شخص اس کا مقابلہ کر سکتا تھا‘ وہ لفظوں کو بے جان نہیں رہنے دیتا تھا‘ وہ شعر پڑھ کراس کے ایک ایک لفظ کو دھڑکتا‘ مچلتا اور دوڑتا ہوا شاہکار بنا دیتا تھا‘ یہ بعدازاں آسٹریلیا چلے گئے‘ وہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر سعودی عرب کی کسی بڑی یونیورسٹی میں پڑھانے لگے اور میرے تیسرے کلاس فیلومرزا ادریس تھے‘ اس شخص میں لکھنے کا حیران کن جوہر تھا‘ تحریر میں بے تحاشا روانی‘ سلاست اور خوب صورتی تھی‘ میں 30 سال لکھنے کے بعد بھی جہاںتک نہیں پہنچ سکا‘ مرزا ادریس 1990ء میں وہاں کھڑا تھا‘
میں آج بھی اس کے ٹیلنٹ اور فن کا مقابلہ نہیںکر سکتا مگریہ اپنی افتاد طبع کا شکار ہو گیا اور مین سٹریم کی بجائے برانچ لائنز کی طرف نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آسکا‘یہ آج کل کہاں ہے؟ میں نہیں جانتا مگر ان شاء اللہ اسے بہت جلد تلاش کروں گا‘ میری کلاس میں اور بھی لوگ تھے‘ ان میں رائو وجیہہ تھا‘ ہارون آباد کی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘ انتہائی خوش حال تھا لہٰذا وہ ہمارا سردار ہوتا تھا‘یہ بعدازاں تبلیغی جماعت میں چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا‘ اسد اعوان میں لیڈر شپ کی کوالٹی تھی‘ یہ گینگ بنا کرپوری یونیورسٹی کی مت مار دیتا تھا‘ چودھری اصغر ہماری کلاس کا چودھری تھا‘ اس کا پورا سٹائل چودھریوںجیسا تھا‘نکلا ہوا پیٹ‘ پھولے ہوئے گال‘موٹی گردن اور بھاری مونچھیں‘ وہ کسی طرف سے بھی سٹوڈنٹ دکھائی نہیں دیتا تھا‘ نوید امان بہت خوب صورت تھا‘ باقاعدہ چاکلیٹی ہیرو دکھائی دیتا تھا‘ اس کی انگریزی بہت شان دار تھی‘ میرعتیق بھی ہمارا متحرک کلاس فیلو تھا‘
یہ بعدازاں اے پی پی میںملازم ہو گیا‘ طارق بھٹی جسمانی طور پر وسیع لیکن ذہنی طور پر سادا تھا‘ ملک عتیق میرے شہر سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ میرے پرانے دوست بھی تھے‘ یہ آج کل کینیڈا میںوکالت کرتے ہیں اور بہت اچھی اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں اور اسد ساہی بھی ہمارا کلاس فیلو تھا‘ یہ بعدازاں ملک کا نامور کرائم رپورٹر بنا مگر بدقسمتی سے عین جوانی میںانتقال کر گیا‘ اس کا ایک بھائی آج بھی صحافی ہے‘ ہمارے ہاسٹل میں جاوید چانڈیو ہوتے تھے‘ یہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ تھے‘ یہ بعدازاں یونیورسٹی میں پڑھانے لگے‘ یہ آج کل آرٹ اینڈ لینگوئجز کے ڈین ہیں اور پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسن چانڈیو کہلاتے ہیں‘ چانڈیو صاحب سٹوڈنٹ ایج میں ہی فلاسفر اور انٹلیکچول تھے‘ میں جب اعزازی ڈگری لے رہا تھا تو مجھے یہ تمام لوگ بار بار یاد آئے اور میںنے دعا کی اللہ تعالیٰ ہمیںایک بار پھرچند دن اسلامیہ یونیورسٹی میں گزارنے کا موقع دے۔
میں 1991ء کے آخر میں بہاولپور سے لاہور آ گیا اورعملی صحافت شروع کردی‘ میری ابتدائی تنخواہ 1400 روپے ہوتی تھی اور یہ تنخواہ بھی مجید نظامی صاحب نے میرے گولڈ میڈل کی وجہ سے دی تھی ورنہ وہ ٹرینی کو صرف بارہ سو روپے دیا کرتے تھے‘ میری ذمہ داری میں پروف ریڈنگ سے لے کر سینئر کے لیے چائے لانا‘ ان کے جوٹھے برتن واپس اٹھانا‘ ان کے بیگ اٹھا کر لانا اور پھر نیچے چھوڑ کر آنا‘ میز صاف کرنا اور باتھ روم صاف کر کے اسے سینئرز کے قابل بنانا بھی شامل تھا‘ مجھے غلطیوں پر کان تک پکڑادیے جاتے تھے‘بے عزتی تو بہرحال معمول تھی‘ میں شروع کے تین برس پیدل دفتر جاتا اور پیدل واپس آتا تھا‘ زمین پرچھ لوگوں کے درمیان سوتا تھا‘اخبارات کا ماحول اس زمانے میں بہت نیگیٹو ہوتاتھا‘ سینئر جونیئر کی انا کوکچلنا اپنا حق سمجھتے تھے اور میں مدت تک اس حق کا شکار بنتا رہا‘ اللہ نے میرا رزق اور عزت کیوں کہ اسی پروفیشن میں رکھی ہوئی تھی لہٰذا میں سب کچھ چپ چاپ سہتا رہا‘
اللہ تعالیٰ نے استقامت دی‘میں صحافت میں ٹکا رہا لیکن زندگی کی سختیوں کی وجہ سے میں اکثر اوقات رو بھی پڑتا تھا مگر اگلے دن دوبارہ یہی کام شروع کر دیتا تھا‘اللہ تعالیٰ نے نہ جانے کس وقت میری کون سی دعا سن لی‘ اسے نہ جانے میری کس بے چارگی پر ترس آ گیا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر خوش قسمتی کے سارے دروازے کھلتے چلے گئے‘ مجھے 26 سال کی عمر میں ایکسی لینسی ایوارڈ ملا‘ یہ ایوارڈ پورے شعبے میںکسی ایک شخص کو دیاجاتا تھا اورمیں وہ خوش نصیب تھا‘ مجھے 27 سال کی عمر میں اے پی این ایس نے بیسٹ کالمسٹ کا ایوارڈ دے دیا‘ میں یہ ایوارڈحاصل کرنے والا نوجوان ترین صحافی تھا‘ میں نے معاشی خود مختاری کے لیے صحافت کے ساتھ ساتھ بزنس شروع کیے اوراللہ تعالیٰ نے چند ہی برسوں میں مجھے ہر قسم کی مالی تنگی سے آزاد کردیا‘
کتابیںشائع ہوئیں تو چند ماہ میںبیسٹ سیلر ہو گئیں‘اللہ نے سفر کے راستے کھولے تو میں 112 ملک پھر گیا اور یہ سلسلہ جاری اور ساری ہے‘ ان شاء اللہ میں پاکستان کا پہلاشخص ہوں گا جو پوری دنیا دیکھ کر دنیا سے رخصت ہو گا‘ یہ میرا ٹارگٹ بھی ہے اور اللہ سے درخواست بھی‘ اللہ تعالیٰ نے انتہائی شان دار اور بااثر دوستوں سے بھی نوازا‘ یہ کنگ میکر ہیں لیکن میری پیروں کی طرح عزت کرتے ہیں‘ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ کسی کے سامنے پھیلنے نہیںدیا‘ اللہ نے مجھے ایسی سعادت مند اولاد سے نوازا کہ لوگ میرے بچوںکو دیکھ کر دعا کرتے ہیں کاش ہمارے بچے بھی ایسے ہو جائیں‘میں کیریئر کے دوران بے شمار مصیبتوںکا شکار بھی ہوا‘ بدنام کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ ہر مصیبت‘ ہر بدنامی سے مکھن کے بال کی طرح نکال لیتا ہے‘
ڈیجیٹل میڈیا میں آیا تو اللہ نے اس میںبھی برکت ڈال دی‘ ٹیلی ویژن شو شروع کیا‘ اللہ نے اسے بھی مقبولیت دے دی‘ سیلف ہیلپ‘ موٹی ویشن اورکوچنگ شروع کی اور ملک کا مصروف ترین اور مہنگا ترین کوچ بن گیا‘ پاکستان کی پہلی باقاعدہ ٹورازم کمپنی شروع کی اس نے بھی حیران کر دیا‘ یو ٹیوب چینلز شروع کیے تو اللہ نے انہیں بھی قبولیت دے دی اور اب آرگینیکل کے نام سے پیور فوڈز کا کام شروع کیا ہے‘ اللہ اس میں بھی راستے نکال رہا ہے‘ہم اب تک 5 ہزار لوگوں کو صرف غذا سے شوگراور بلڈ پریشر سے نکال چکے ہیں‘ ہم پورے ملک کو شوگر فری کرنا چاہتے ہیں اور اسے ان قدرتی غذائوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن میں شفاء بھی ہے اور عافیت بھی اور ان شاء اللہ ہم یہ کر کے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ نے اس سال ستارہ امتیاز اور پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نواز دیا‘اللہ تعالیٰ نے کوئی کمی‘ کوئی کسر نہیں چھوڑی اگر تھی تو بس دو چیزوں کی کمی تھی‘ درود کم پڑھتا تھا اور داڑھی نہیں رکھی تھی‘ حضورؐ کا حکم آیا تو پہلے درود شروع کر دیا اور پھر تھوڑی ہی سہی لیکن داڑھی بھی رکھ لی۔
میں آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یقین نہیںآتا‘ یہ سارا سفر میں نے خود کیا‘ یہ سارے کام اللہ نے مجھ سے کرائے اور وہ بھی صرف 32برسوں میں‘ یقین کریں مجھے یقین نہیںآتا‘زندگی کی اس شان دار پینٹنگ میں بس ایک خامی تھی اور وہ خامی تھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے رابطے میں کمی‘ یہ رابطہ 1991ء میں ٹوٹ گیا تھا مگرپھر2019ء میں اچانک ایک فون آیا اور دوسری طرف سے آواز آئی میں پروفیسر اطہر محبوب بول رہا ہوں اور اس فون کے ساتھ ہی میری ذات کا ٹوٹا ہوا دھاگا دوبارہ جڑ گیا۔ (جاری ہے)