کراچی (این این آئی) پاکستان اکانومی واچ کے چیئرمین برگیڈئیر(ر) محمد اسلم خان نے کہا ہے کہ عوام کی آمدنی اور اخراجات میں فرق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لوگ بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات بچا کر بھی گزارہ نہیں کر پا رہے ہیں جس سے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ پیشہ ور بھکاروں کے علاوہ بہت سے سفید پوش اور ملازمت پیشہ افراد بھی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
عوام کو بتایا جاتا ہے کہ انھیں ریلیف دینے کے لئے وسائل نہیں ہیں جو غلط ہے۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے مگر یہ اشرافیہ کے لئے ہیں عوام کے لئے نہیں۔اشرافیہ کو ہر سال ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دی جا سکتی ہیں، شوگر مافیا سمیت ہر قسم کی مافیا کو تحفظ اور لوٹ مار کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے مگر عوام کے لئے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ارباب اختیار کی ترجیح نہیں ہیں۔ موجودہ حالات میں عوام کی صرف جیب اور پیٹ ہی خالی نہیں ہے بلکہ وہ زبردست نفسیاتی دبائو کا شکار ہیں جس کے اثرات سارا معاشرہ بھگتے گا۔ جو حکومت معیشت کو ٹریک پر ڈالنے کے نعرے لگاتے ہوئے آئی تھی وہ اپنے مقدمات ختم کروا کے اور منافع خوروں کو فری ہینڈ دے کر چلی گئی ہے جبکہ موجودہ حکومت سے بھی ایسی کوئی امید نہیں کہ وہ عوام کولوٹنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کرے گی۔
جو لوگ عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ حکومت کے پاس سبسڈی دینے کے لئے وسائل نہیں ہیں وہ یہ بتائیں کہ اشرافیہ کو نوازنے کے وسائل کہاں سے آ رہے ہیں۔ اسلم خان نے کہا کہ روپے کے زوال، کاروباری برادری کے اعتماد کے خاتمہ اور سٹاک مارکیٹ کی تباہی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے معاشی حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں ۔اس وقت کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کو تیار نہیں ہے عرب ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے وعدے بھی پورے نہیں ہو سکے ہیںجبکہ ترسیلات اور برامدات کی صورتحال بھی خراب ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں ڈالروں کی آمد کم رہے گی جس سے معیشت اور روپے دبائو کا شکار رہیں گے اور موجودہ حکومت کے لئے معاشی تباہی کے آگے بند باندھنا خاصا مشکل ہو گا۔