اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) جناح ہاؤس لاہور‘ جی ایچ کیو راولپنڈی اور دوسری حساس سرکاری‘ فوجی املاک کو جزوی یا کلی طور پر تباہ کرنے والے ملزموں کیخلاف فوری سماعت کی فوجی عدالتوں کی تشکیل جلد کی جائیگی۔روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بھی طے کر لیا گیا ہے کہ فوری سماعت کی ملٹری کورٹس کا سربراہ کم سے کم کرنل‘ بریگیڈئر اور زیادہ سے زیادہ میجر جنرل کے عہدے کا فوجی افسر ہو گا۔
آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ فوری سماعت کی فوجی عدالتیں جرائم کی تحقیقات کریں گی۔ وفاقی دارالحکومت‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اعلیٰ عدالتوں کو بھی فوری سماعت کی فوجی عدالتوں کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرنے دی جائیگی۔ 1975-76ء میں اٹک سازش کا ٹرائل اُس وقت کے میجر جنرل محمد ضیاء الحق کی سربراہی میں قائم ملٹری کورٹ نے کیا تھا۔اُس زمانے کے نوجوان افسروں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف سازش کی تھی تو قلعہ اٹک میں میجر جنرل محمد ضیاء الحق اور اُنکی فوجی عدالت نے ملزمان کو پھانسی اور عمر قید کی سخت سزائیں دینے کی سفارش کی تھی جبکہ اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سزاؤں میں نرمی کر دی تھی۔ آرمی ایکٹ کے تحت جرم ناقابل دست اندازی پولیس نہیں ہے‘ آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس ہی ہر قسم کے جرائم پر ایکشن لیں گی۔سول کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی افسر اور اہلکار بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔ فوج کی ہائی کمان ان لوگوں کا ملٹری ٹرائل کریگی۔ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات رجسٹر یہ عدالتیں کریں گی۔متعلقہ فوجی افسر اس بارے باقاعدہ شکایت دائر کریگا۔ ملٹری کورٹس اس بات کو بھی زیر غور رکھے گی کہ جناح ہاؤس لاہور (کور کمانڈرز ہاؤس) کے اندر انتہائی ٹاپ سیکرٹ ڈاکومنٹس موجود تھے‘ حتیٰ کہ ضابطہ اخلاق اور قواعدو ضوابط کے مطابق ضلع کے ڈپٹی کمشنر‘ ڈویژنل کمشنر کی رہائشگاہ پر 24گھنٹے پہرہ اسلئے لگایا جاتا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر ہاؤس‘ کمشنر ہاؤس وغیرہ میں ٹاپ سیکرٹری ڈاکومنٹ ہوتے ہیں جن میں وار بک جیسی انتہائی اہم کتاب سیف اور لاکرز میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔ یہ وار بک جنگ یا اندرونی خلفشار کی صورت میں اسے کھول کر متعلقہ عہدیدار ضروری احکامات جاری کرتے ہیں۔